تحقیقاتی ٹیم کو سانحہ 9؍ مئی کے ناقابل تردیدی ثبوت مل گئے،پی ٹی آئی کی قیادت ملوث ہے، تفتیشی ذرائع کا دعویٰ

26 مئی ، 2023

اسلام آباد (فخر درانی) پنجاب پولیس کی ایک اعلیٰ سطح تحقیقاتی ٹیم سانحہ 9؍ مئی کی چھان بین کررہیہے جس میں جی ایچ کیو پر حملہ، کور کمانڈ ہائوس میں توڑ پھوڑ اور دیگر حساس فوجی تنصیبات پر حملے شامل ہیں۔ شہادتوں کے تیکنیکی تفتیشی عمل میں بتایا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں پنجاب حکومت کے شرپسندوں کے خلاف کریک ڈائون اور تحریک انصاف کی قیادت کو اس میں ملوث کرنے کے بعد لوگ سوالات اٹھارہے ہیں۔ آیا تحقیقاتی ٹیم شفافیت کے ساتھ معاملے کی چھان بین کررہی اور یہ کہ امن و امان کے نام پر کسی بے گناہ کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ 9؍ مئی کے واقعات میں ملوث تخریب کاروں کی نشاندہی یا شناخت کیسے ہوئی اور پنجاب پولیس تحقیقات کو کیسے آگے بڑھا رہی ہے۔ پنجاب پولیس سے وابستہ ذرائع کے مطابق ڈی آئی جی کامران عادل کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم کی توجہ شرپسندوں کو ذمہ دار قرار دینے کےلیے تیکنیکی شہادتوں پر مرکوز ہے اس نے تین تیکنیکی پہلوئوں کومدنظر رکھا ہے۔ اول فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ اور یو ٹیوب سمیت سوشل میڈیا پر پوسٹس، دوسرے سیف سٹی کیمرے اور وڈیو فوٹیجز اور تیسرے جیو فینسنگ اور کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) ان تینوں تیکنیکی پلیٹ فارمز سے یہ پی ٹی آئی قیادت کا سوچا سمجھا منصوبہ دکھائی دیتا ہے۔ اگر عمران خان گرفتار ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی قیادت کے واٹس ایپ گروپوں کے ریکارڈ ان کے خلاف ناقابل تردیدی ثبوت ہوں گے۔ تحقیقاتی ٹیم نے واٹس ایپ گروپوں میں پی ٹی آئی قیادت کی چیٹنگ کا بھی ریکارڈ حاصل کرلیا ہے جو وہ حساس تنصیبات پر حملوں کےلیے کارکنوں کو اکسارہے تھے۔ ذرائع کا مزیدکہنا ہے کہ عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کی صورت میں حساس فوجی تنصیبات پر حملوں کا منصوبہ بہت پہلے بنالیا گیا تھاجس کے لئے جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہائوس، آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز اور دیگر کئی اہم عمارتوں کو نشان زدہ کرلیا گیا تھا۔ انہوں نے 10؍ دیگر اہم مقامات کو بھی نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں ڈاکٹر یاسمین راشد، محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور دیگر براہ راست ملوث بتائے گئے ہیں انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے۔ پولیس نے سوشل میڈیا ریکارڈ، جیو فینسنگ اور نادرا ریکارڈ کی مدد سے 680؍ شرپسندوں کو گرفتار کیا ہے جبکہ پولیس نے قومی میڈیا پر کچھ ملزمان کی تصاویر بھی مشتہر کی ہیں ان کی گرفتاری میں مدد پر نقد انعامات بھی رکھے گئے ہیں اس اسکیم کے تحت 10؍ ملزمان کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ناقابل تردید ثبوتوں کی بنیاد پرکچھ شرپسندوں کو فوجی عدالت میں طلب کیا گیا ہے اس حوالے سےردعمل کے لیے ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کامران عادل سے کوشش کے باوجود گزشتہ دو دنوں سےرابطہ نہیں ہوا۔