اسلام آباد(جنگ رپورٹر)عدالت عظمیٰ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کر تے ہوئے کمیشن کی اب تک کی کارروائی پر حکم امتناع جاری کردیا ہے، عدالت نے نوٹیفکیشن اجراء کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کا عبوری حکمنامہ جاری کرتے ہوئے آڈیو لیکس کمیشن کو مقدمہ کی آئندہ سماعت تک مزید کارروائی سے روک دیاہے جبکہ اٹارنی جنرل سمیت دیگر تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر تے ہوئے سماعت 31 مئی تک ملتوی کردی ہے ، تحریری حکم نامہ کے مطابق حکومت کی جانب سے بنچ میں چیف جسٹس کی موجودگی سے متعلق اٹھنے والا اعتراض مسترد کیا جاتا ہے یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ کسی بھی انکوائری کمیشن میں کسی جج کی شمولیت کیلئے چیف جسٹس سے اجازت لینا ضروری ہےبادی النظر میں وفاقی حکومت نے یکطرفہ اقدام سے آئینی اصولی کی خلاف ورزی کی ہے عدالت نے حکمنامہ میں کمیشن تشکیل کے عمل کو بھی مشکوک قرار دیا ہے، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت نے ججوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے بادی النظر میں کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن میں غلطیاں ہیں کمیشن کی تشکیل عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے آئین عدلیہ کو مکمل آزادی دیتا ہے جو تحقیقات اداروں نے کرنی تھیں وہ ججوں کے سپرد کردی گئی، چیف جسٹس عمرعطاءبندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے عمران خان ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد شاہد زبیری وغیرہ کی درخواستوں کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے بنچ میں چیف جسٹس کی شمولیت پر اعتراض اٹھاتے ہوئے استدعا کی کہ وہ اس بینچ کا حصہ نہ بنیں چیف جسٹس نے کہا آپکا مطلب ہے کہ میں بینچ سے الگ ہوجائوں اگر جھگڑنا ہے تو آپ تیاری کرکے آئیں، عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، حکومت نے جلد بازی میں چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی کی ہے حکومت کیسے ججوں کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کرسکتی ہے کمیشن کیلئے جج کی نامزدگی کا فورم چیف جسٹس کا ہے یہ ضروری نہیں کہ چیف جسٹس خود کو کمیشن میں نامزد کریں لیکن چیف جسٹس وفاقی حکومت کی چوائس کے پابندنہیں ، حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو کوئی بہتر راستہ دکھاتے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیاگیا ہے اٹارنی جنرل صاحب یہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے بہت ہوگیا ہے ہم حکومت کامکمل احترام کرتے ہیں آپ بیٹھ جائیں آپکی درخواست قابل احترام ہے لیکن چیف جسٹس کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے مجھے معلوم تھا آپ یہ اعتراض اٹھائیں گے لیکن عدلیہ وفاقی حکومت کے ماتحت ادارہ نہیں ، آئین اختیارات کے تکون کی بات کرتا ہے اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کو پامال نہیں کیا جاسکتا ہے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کا قیام آئین کے آرٹیکل 209 کی بھی خلاف ورزی ہے 9 مئی کے واقعہ کا فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کیخلاف بیان بازی ختم ہو گئی ہے ، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے جب میڈیا پر یہ آڈیو چلائی جا رہی تھیں حکومت یا پیمرا نے اسکو روکنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی تھی چیف جسٹس نے کہا کہ انکوائری کمیشن کی تشکیل میں یہ بھی نہیں لکھا گیا کہ فون ٹیپنگ کس نے کی ہے فون ٹیپنگ ایک غیر آئینی عمل ہےجسٹس منیب اختر نے کہا کہ ٹیلیفون پر گفتگو کی ٹیپنگ نہ صرف غیر قانونی عمل ہے بلکہ آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے،قبل ازیں سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل روسٹرم پرآگئے اور بنچ پر اعتراض اٹھا دیا اورکہا کہ ان تمام امور کا حل ہو سکتا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت مسائل حل کرے تو ہم بھی ریلیف دینگے سپریم کورٹ کے انتظامی امور میں پوچھے بغیر مداخلت ہوگی تو یہ ہوگا ہمیں احساس ہے کہ آپ حکومت کے وکیل ہیں تمام اداروں کو مکمل احترام ملنا چاہئےعدلیہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ہم انا کی نہیں آئین کی بات کررہے ہیں ہر بات کھل کر قانون میں نہیں دی گئی ہوتی آئین پر اسکی روح کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے آرٹیکل 175 کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتااٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے عدلیہ میں تقسیم کی کوشش نہیں کی چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے اگر نہیں کی تو بھی ایسا ہوا ضرور ہے آپ ایک نفیس انسان ہیں ہم آپکا اور حکومت کا احترام کرتے ہیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملے کی وضاحت دی جا سکتی ہےچیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت عدلیہ کے معاملات میں کوارٹرز کا خیال کرے انکوائری کمیشن میں حکومت نے خود جج تجویز کئے ہیں اس سے پہلے اس طرح کے 3 نوٹیفکیشن جاری ہوئے تھے جن میں حکومت نے جج تجویز کئے لیکن بعد میں یہ نوٹیفکیشن واپس لے لئے گئے تھے ، عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے قیام کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قراردیتے ہوئے موقف اپنایا کہ کسی بھی حاضر سروس جج کو کمیشن میں تعینات کرنے سے پہلے چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے کسی نجی شخص کو بھی کمیشن میں لگانے سے پہلے مشاورت ضروری ہے کیونکہ اس نے جوڈیشل کارروائی کرنی ہوتی ہے اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ 2017 کو چیلنج نہیں کیا گیاہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ 1956 ایکٹ آئین کے احترام کی بات کرتا ہے اس نکتے پر بعد میں آئینگے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس نکتے پر بھی تیار ہیں شعیب شاہین نے کہا کہ فون ٹیپنگ بذات خود غیر آئینی عمل ہے انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار میں کہیں نہیں لکھا کہ فون کس نے ٹیپ کئے ہیں حکومت تاثر دے رہی ہے کہ جیسے فون ٹیپنگ کا عمل درست ہے حکومت تسلیم کرے کہ ہماری کسی ایجنسی نے فون ٹیپنگ کی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ فون ٹیپنگ پر بینظیر بھٹو حکومت کا کیس موجود ہے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں بھی اصول طے کئے جاچکے ہیں وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ آئین کا احترام کرتے ہوئے روایات کے مطابق عمل کریں ، اگر کوئی جج ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرے تو اسکا تعین کون کریگا شعیب شاہین نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 209کے تحت یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے لیکن اس معاملہ میں جوڈیشل کونسل کا اختیار انکوائری کمیشن کو دیدیا گیاہے چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مفروضے کی بنیاد پر آڈیوز کو درست مان لیا گیا شعیب شاہین نے موقف اپنایا انکوائری کمیشن نے پورے پاکستان کو تونوٹس جاری کردیا ہے کہ جس کسی کے پاس جو مواد ہے وہ جمع کروا سکتا ہے لیکن کسی قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 209 ایگزیکٹو کو صدراتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجنے کی اجازت دیتا ہے بظاہر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں کیخلاف مواد اکٹھا کر کے مس کنڈکٹ کیا ہے وفاقی حکومت نے اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کی خلاف ورزی کی ہے چیف جسٹس نے کہا لگتا ہے انکوائری کمیشن نے ہر کام جلدی میں کیا ہےجسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ججز اپنی مرضی سے کیسے کمیشن کا حصہ بن سکتے ہیں میٹھے الفاظ استعمال کر کے کور دینے کی کوشش کی جارہی ہے ،شعیب شاہین نے کہا کہ پیمرا نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی حکومت نے بھی پیمرا سے کوئی باز پرس نہیں کی اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیمرا کی حد تک عدالت سے متفق ہوں شعیب شاہین نے کہا قانون کے مطابق فون ٹیپنگ اور بگنگ شہری کی پرائیویسی کیخلاف ہیں آئین و قانون اسکی اجازت نہیں دیتا ججوں کی سرویلنس (جاسوسی ) کی ممانعت کی گئی ہے کوئی ایسا قانون نہیں جو ایجنسیوں کو شہریوں کے فون ٹیپ اور پرائیویسی کو مجروح کرنے کا اختیار دیتا ہو، پرائیویسی مجروح کرنا شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے سماعت مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعدمیں سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ۔
اسلام آباد خسارے کا شکار پی آئی اے کی تنظیم نو کیلئے مالیاتی مشیر کی خدمات حاصل کرنے کی درخواستوں کے...
اسلام آباد وفاقی حکومت نے سینئر جوائنٹ سیکرٹری پاور ڈویژن حسن رضا سعید کا تبادلہ کر کے اُنہیں سینئر جوائنٹ...
اسلام آبادسابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر ملزمان کیخلاف ریفرنس احتساب عدالت میں سماعت کیلئے مقرر...
لاہور پنجاب بورڈ آف ریونیو میں اربوں روپے مالیت کی متروکہ املاک جائیدادکی چھان بین کے لئے بنائی گئی صوبائی...
اسلام آباد اسلام آباد ہائیکورٹ نے آڈیو لیکس معاملے میں سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی ایف آئی اے طلبی کے...
کراچی امریکا نے خالصتان سے متعلق پالیسی پر تبصرے سے گریز کیا ہے ، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے...
اسلام آباد فیس بک ، واٹس اپ اور انسٹا گرام کی کمپنی میٹا نے پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کی شفافیت ، تحفظ...
اسلام آباد چیف آف آرمی سٹاف جنرل سیّد عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کی ترقی و استحکام اور امن کیلئے...