اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں پانی کی قلت میں اضافہ ہورہا ہے۔عالمی ادارہ برائے خوراک وزراعت کی نئی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر ایک منٹ میں 23ایکڑ رقبہ پانی کی قلت کے باعث بنجر ہورہا ہے۔عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور پانی کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسائل سے زرعی شعبہ کو سنگین خطرات درپیش ہیں ،پاکستان میں 80فیصد رقبہ پانی کی قلت سے متاثر ہے۔آبی ذخائر نہ ہونے اور دریاؤں میں صنعتی اور شہروں کا آلودہ پانی شامل ہونے کی وجہ سے آبی حیات کو شدید نقصان کے علاوہ زرعی پیدا وار بھی متاثر ہورہی ہے۔رپورٹ کے مطابق2025تک دنیا میں 1.8ارب افراد کو پانی کی کمی کا سامنا ہو گا اور دنیا کی دو تہائی آبادی پانی کی شدید قلت کا شکارہوگی۔2045ء تک 135ملین عالمی آبادی پانی کی قلت کے باعث اپنی آبادیاں چھوڑنے پر مجبور ہو جائےگی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آبی وسائل سے بھر پور استفادہ اور پانی کے استعمال میں احتیاط انتہائی ضروری ہے تاکہ آنے والے وقت میں آبی قلت، زمین کے بنجر ہونےاور صحراؤں میں اضافہ جیسے مسائل پر قابو پایا جاسکے۔نیز پانی کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے تاہم آبی قلت اور زمینوں کو بنجر ہونے اور صحرازدگی سے بچانے کیلئے پاکستان کو سر سبز بنانا ہو گا۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق پانی کی قلت کی فی کس سالانہ کم از کم حد ایک ہزار کیوبک میٹر ہے تاہم عرب شہریوں کو اوسطاً فی کس500کیوبک میٹر سے بھی کم پانی مل رہا ہے۔دوسری جانب عرب ممالک میں موسمی تبدیلیاں اور آبادی میں اضافہ بھی ہورہا ہے جس سے پانی کا بحران مزید بڑھ رہا ہے۔اقوام متحدہ نے قلت آب کے بارے میں عالمی رائے عامہ بیدار کرنے کیلئے خصوصی پروگرام شروع کیا ہے جسے پانی برائے پائیدارترقی کا عنوان دیا گیا ہے۔اس 10سالہ پروگرام کا آغاز 2018ء میں کیا گیا تھا اور یہ 2028ء تک جاری رہے گا۔
پاکستان اس وقت جن سنگین ترین بحرانوں سے دوچار ہے ان میں قومی سلامتی کو درپیش چیلنجوں اور خطرات کے بعد جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ پانی کا مسئلہ ہے، اس کو مزید سنگین کرنے میں بیرونی کیساتھ ساتھ اندرونی عوامل کا بھی بڑا ہاتھ ہے، تاریخ پر نظر ڈالیں تو پانی کی قلت اور کم یابی اسی وقت شروع ہوگئی تھی جب تقسیم کے بعد بھارت سے آنیوالے دریائوں کے پانی کی ملکیت کے تنازع نے جنم لیا، لیکن ہماری قیادت کی نااہلی نے اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید الجھا دیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ70برس قبل ہر پاکستانی کیلئے فی کس 5000کیوبک میڑ پانی کی مقدار اب کم ہو کر محض ایک ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ اسی قلت کے سبب صوبوں کے درمیان ایک مرتبہ پھر تنازع کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اس بحران کی اگرچہ بہت سی سیاسی وجوہات بھی ہیں لیکن صورتحال کو موجودہ نہج تک پہنچانے میں بھارت کی ہٹ دھرمی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔پانی کے مسئلہ کے حل کیلئے اب تک بھارتی قیادت کے ساتھ بارہا مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے باوجودہ باہمی اختلافات بھارتی ہٹ دھرمی کےباعث بہتر ہونے کے بجائے مزید کشیدگی کی طرف بڑھتے رہے اور اس سلسلہ میں اب تک کی جانے والی تمام تر کوششیں ناکامی ہی سے دوچار ہوئی ہیں، حتیٰ کہ بھارت نے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جہاں پاکستان کے حصے میں آنیوالے پانی کا زبردستی استعمال شروع کر دیا وہیں پاکستان کی ملکیت کے دریائوں پر ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر کے ایک ایسے تنازع کو ہوا دی جو دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان چوتھی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں ماہرین آئندہ عالمی جنگ پانی ہی کے مسئلے پر ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں وہیں جنوبی ایشیاء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی ملکیت اور تقسیم کے تنازع کو بھی انتہائی خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔ پانی کی کمی کے سبب جہاں خطے کا امن دائوپر لگا ہوا ہے وہیں پاکستان کی زراعت، جو کہ ہماری معیشت کی بنیاد ہے ،بھی تباہی کی طرف گامزن ہے اور وہ خطہ جو زرعی لحاظ سے دنیا میں ذرخیز ترین تصورکیا جاتا تھا پانی کی کمی کے سبب بنجر ہوتا جا رہا ہے۔1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے ، جس کےورلڈ بنک، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینڈا ضامن ہیں، کے تحت پاکستان اور بھارت دونوں کو تین تین دریائوں کے پانیوں پرملکیت کا حق دیا گیا ہے، معاہدے کے مطابق ستلج، بیاس اور راوی بھارت جبکہ چناب، جہلم اور سندھ پاکستان کے حصے میں ہیں لیکن اس کے باوجود تنازع ختم نہ ہو سکا، بھارت نے تمام تر شرائط اور وعدے نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میں آنیوالے دریائے چناب پر 450میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کےلئے بگلیہار ڈیم کی تعمیر کا اعلان کر دیا جس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین پہلے ہی سے موجود تنازع کو مزید شدید کر دیا، منصوبے کے تحت 470فٹ بلندی پر پانی کے اس ذخیرے کی تعمیر پاکستانی زراعت کیلئے زہر قاتل ہے جبکہ ساتھ ہی ملک میں توانائی کے بحران میں بھی شدت کا باعث ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 9اکتوبر 2008 ء اور گیارہ اکتوبر 2008ء کے دوران صرف تین دن میں بھارت نے پاکستان کو عام حالات میں ملنے والا 55000کیوسک پانی کم کر کے 10739کیوسک اخراج تک محدودکردیا۔ حکومت سے درخواست ہے کہ نئے ڈیمز بنانے پرزیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے جس سے پاور سیکٹر میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔
فضا پاک و بھارت کی ہے قابلِ دیدکہیں اور ایسا کہاں ہورہا ہے یہ ہونا نہیں چاہئے یا الٰہی جو بد قسمتی سے یہاں...
کشمیر میں ہندوؤں کے مقدس مقام امرناتھ غار یا مندر تک پہنچنے کا راستہ پہلگام سے گزرتا ہے۔ بی بی سی نے عینی...
گوالمنڈی لاہور کے ایروز سینما کے باہر ایک حاجی صاحب چنے لگاتے تھے ان کے اصل نام کا شاید ہی کسی کو پتہ ہو، بس سب...
میٹرک تک میں پی ایچ ڈی کو ایک ہی لفظ سمجھتا رہا، بعد میں پتا چلا کہ میں ٹھیک تھا۔ آج کل اتنے پی ایچ ڈیز ہوگئے...
انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے ہندتوا کی سوچ کے ساتھ جو پالیسیاں اپنائی ہوئی ہیں انکی وجہ سے ان کے ملک کا چہرہ...
منگل کے روز جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہل گام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کر...
برصغیر پاک و ہند کہنے کوتو ارضی سیاسی تقسیم میں سات براعظموں، افریقہ، انٹارکٹیکا، ایشیا، آسٹریلیا، یورپ،...
یہ ایک دو نہیں، سو پچاس نہیں، ہزار دو ہزار نہیں، پورےسڑسٹھ ہزار پاکستانی حاجیوں کا مسئلہ ہے کہ وہ عزم حج کر...