اسلام آباد ( رپورٹ، رانا مسعود حسین ) وفاقی حکومت کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے بعض ججوں اور دیگر ممتا ز شخصیات سے متعلق قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر لیک ہونے والی ’آڈیو گفتگو‘کی حقیقت جاننے کیلئے تشکیل دیئے گئے تین رکنی جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں مزید تحقیقات روکدی ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں کیا گیا تھا توکمیشن معطل کیسے ہوا؟ قواعد کے مطابق فریقین کو سن کر فیصلہ کیا جاتا ہے، آڈیو لیکس پر انکوائری کمیشن قانون کے تحت بنا ، سپریم کورٹ ہائی کورٹس کی نگرانی نہیں کر سکتی، بظاہر فیڈرل ازم کو تباہ کیا گیا، پتہ تو چلے کون آڈیو جاری کر رہا ہے، اصلی ہیں بھی یا نہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی جج پر الزام ہو اسے ایسے ہی چلنے دیں،مجھے کوئی مرضی کے فیصلے کیلئے رقم آفر کرے تو کیا یہ گفتگو بھی پرائیویسی میں آئیگی؟ پرائیویسی صرف گھر کی ہوتی ہے، کیا بینک کے سی سی ٹی وی کیمرے میں قتل کی واردات آجائے تو کیا فوٹیج استعمال نہیں ہوسکتی؟ ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں،کئی بار تکلیف دہ ٹاسک ملتے ہیں، حلف کی وجہ سے عمل کے پابند ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ، جسٹس عامرفاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی جوڈیشل کمیشن نے ہفتہ کے روز کارروائی کا آغاز کیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سنا ہے کہ عدالت نے کمیشن سے متعلق کوئی حکم نامہ جاری کیا ہے، ہمیں اس حکم نامہ کی کاپی فراہم کریں۔ اٹارنی جنرل نے کاپی عدالت کو فراہم کردی۔کمیشن نے اٹارنی جنرل کو پچھلے روز کا عدالتی حکم پڑھنے کی ہدایت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے استفسار کیا کہ انکوائری کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں تھا تو کام سے کیسے روک دیا گیا ہے ؟ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ بھی کل سپریم کورٹ میں موجود تھے ؟ ، اٹارنی جنرل نے ہاں میں جواب دیا، جسٹس فائز نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو عدالت کی طرف سے نوٹس جاری کیا گیا تھا ؟جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے ٹیلی فون پر عدالت پیش ہونے کا کہا گیا تھا ۔جسٹس فائز نے کہا کہ سپریم کورٹ قواعد کے مطابق فریقین کو پیشگی نوٹسز جاری کرنا ہوتے ہیں،سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر اس کے بعد کوئی حکم جاری کیا جاتا ہے، کمیشن کو کسی بھی درخواست گزار نے نوٹس نہیں بھیجا؟سپریم کورٹ کے رولز ر پر عملدرآمد لازم ہے ۔انھوں نے کہا نوٹس کے حوالے سے بیان حلفی بھی عدالت میں دیا جاتا ہے جبکہ درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی آج کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا ۔جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ باہر پریس کانفرنس کی جاتی ہے لیکن ہمارے سامنے پیش کوئی نہیں ہوا ، نہ عابد زبیری آئے نہ ان کے وکیل شعیب شاہین نے پیش ہونے کی زحمت کی ، اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے عدالت کو آگاہ نہیں کیا کہ کمیشن آئین کے آرٹیکل 209 کی کارروائی نہیں کر رہا؟۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ابھی وہ اسٹیج ہی نہیں آئی تھی نہ ہم وہ کر رہے تھے، ایک گواہ اس وقت موجود ہیں، اس دوران جسٹس قاضی فائز نے جنگ جیو کے رپورٹر عبدالقیوم صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے؟تو انہوںنے بتایا کہ میرا نام عبدالقیوم ہے۔جسٹس قاضی فائز نے کہا ہو سکتا ہے کہ انہیں کمیشن کی کارروائی پر کوئی اعتراض نہ ہو، ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی اور کہا کہ وہ میڈیکل چیک اپ کیلئےلاہور میں ہیں، جب لاہور آئیں تو ان کا بیان بھی لے لیں۔ جسٹس فائز نے کہا کہ عدالت کو کل ہمارے حکم کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے تھا، حیران ہوں آپ نے کل ان نکات کو رد نہیں کیا،تھوڑا بہت آئین میں بھی جانتا ہوں، آپ نے کل عدالت کو بتایا کیوں نہیں کہ ان کے اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے۔ شعیب شاہین نے میڈیا پر تقریریں کر دیں لیکن یہاں آنے کی زحمت نہیں کی۔فاضل جج نے استفسار کیا کہ کیا انہیں آکر بتانا نہیں تھا کہ حکم امتناع جاری ہو گیا۔جسٹس فائز نے کہا کہ شعیب شاہین نے پچھلے روز کہا تھا کہ کسی کی بھی آڈیو آئے، اس جج کا معاملہ سیدھا سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دو۔جسٹس قاضی نے سوال اٹھایا کہ درجنوں ایسی شکایات آتی ہیں تو کیا سب سپریم جوڈیشل کمیشن بھیج دیا کریں؟،آڈیو کی صداقت جانے بغیر کیوں کسی کی زندگی تباہ کر دیں؟انھوں نے کہا پہلے آڈیو کی اصلیت طے کرنا ضرروی ہے ، کس نے آڈیو ریکارڈ کی وہ بعد کی بات ہے۔انھوں نے کہا کہ پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے، کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا ، باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں، کیا یہ بھی پرائیویسی کیخلاف ہیں؟۔ انہوں نے کہا کہ کیا بینک کے سی سی ٹی وی کیمرے میں قتل کی واردات آجائے تو کیا فوٹیج استعمال نہیں ہوسکتی؟ ،شعیب شاہین روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر وکلا ء پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ہمیں قانون سکھانے آگئے ہیں، کوئی بات نہیں سکھائیں ہم تو روزانہ قانون سیکھتے رہتے ہیں۔جسٹس فائز نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کل کے تحریری حکمنامے میں میرے کیس کا بھی ذکر ہوا، میرے کیس کے حقائق یکسر مختلف تھے، میری اہلیہ نے جائیدادوں کی ملکیت سے انکار نہیں کیا تھا، میری اہلیہ کا کیس یہ تھا جو شخص ہمارے خلاف سپریم کورٹ میں کھڑا ہے، اسے کسی نے کھڑا کیا ہے،اس بارے کم از کم جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ پورا تو پڑھنا چاہیے، دوسروں کی عزت ہے تو ہماری بھی عزت ہونی چاہیے، زیادہ نہیں کم از کم تھوڑی بہت تو ہماری عزت ہونی چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ حکومت نے مجھے ایک ٹاسک دیاہے ، اس لیے ہم بیٹھے ہیں، فاضل جج نے ججوں کا حلف پڑھنے کیلئے کہا اور ریمارکس دیے کہ حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا، یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے، کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیاہے، ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں۔فاضل جج سانحہ کوئٹہ انکوائری کمیشن کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے اور کہا کہ ہم آئین و قانون کے تابع ہیں، ہمیں کئی بار بہت تکلیف دہ قسم کے ٹاسک ملتے ہیں، ہم وہ ٹاسک انجوائے نہیں کر رہے ہوتے مگر حلف کے تحت کرنے کے پابند ہیں، حلف کے تحت اس کی اجازت نہ ہوتی تو معذرت کر کے چلا گیا ہوتا، ہمیں کیا پڑی تھی، ہمیں اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا، ہمیں اس درد ناک واقعے جیسے معاملات کی تحقیقات کرنا پڑتی ہیں۔ جسٹس فائز نے کہا کہ ایک طرف پرائیویسی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنی آڈیوز پر ٹاک شو میں بیٹھے ہیں، ہم ٹاک شو میں جواب تو نہیں دے سکتے۔جسٹس فائز نے کہا کہ اب شام کو ٹاک شوز میں کہا جائے گا کہ ہم آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، ٹی وی پر ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں لیکن یہاں آکر بتاتے نہیں کہ حکم امتناع جاری ہوگیا ہے۔ فاضل جج نے سوال اٹھایا کہ کیا قانون اور اپنے حلف کے تحت ہم کسی مشکل ٹاسک سے انکار کر سکتے ہیں ؟ یہ ذمہ داری ہمارے لیے ذہنی تکلیف کا باعث ہو سکتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے ہر ایک پر لازم ہے، حیران ہوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سپریم کورٹ پہ لاگو نہیں ہوتے۔جسٹس قاضی نے کہا کہ وکیل اپنا کوڈ آف کنڈیکٹ بھی پڑھیں، ایک وکیل موکل سے جج کے نام پر دو لاکھ مانگ لے، کیا ایسی گفتگو پر بھی پرائیویسی کے استحقاق کا اطلاق ہوگا؟، بطور وکیل پریکٹس کرتے تھے، ہم حکم امتناع لیکر متعلقہ عدالت کو جاکر آگاہ کرتے تھے، وکیل خود اپنے کوڈ پر عمل نہیں کرتے، ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ جسٹس فائز نے کہا حیران ہوں کہ سچ کو کیوں سامنے آنے سے روکا جا رہا ہے، اعتراض کمیشن میں آ کر بھی کیا جا سکتا تھا، واضح کیا تھا کسی کے حقوق متاثر کرینگے نہ کسی کو ملزم بنائیں گے، قرآن شریف کے مطابق سچ ہمیشہ جھوٹ کو مٹا دیتا ہے۔انھوں نے کہا کہ کمیشن کے ایک رکن کوئٹہ سے صبح نو بجے پہنچے ہیں، کمیشن کو سٹے آرڈر سے آگاہ کیا گیا نہ پہلے نوٹس دیا گیا، کمیشن کو بتایا جاتا تو جج صاحب کو کوئٹہ سے نہ بلاتے ۔جسٹس فائز نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں پر ہماری اور عدالت میں ان کی بات کرتے ہیں،اٹارنی جنرل صاحب آپ نے عدالت کو قانونی نکات کیوں نہیں بتائے؟۔ جسٹس قاضی فائز نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ لارجر بینچ میں چیف جسٹس پر اعتراض کیوں کیا تھا؟جس پر انہوں نے کہا کہ تحقیق طلب ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوشدامن سے متعلق ہے۔جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ انکوائری کمیشن ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون نے چیف جسٹس سے مشاورت کی پابندی نہیں۔ جسٹس قاضی نے کہا عدالت نے اپنے آرڈر میں لکھا کہ حکومت نے یکطرفہ کارروائی کی ہے، حکومت ہمیشہ یکطرفہ ہی چلتی ہے، عدالتی آرڈر میں تو ہائیکورٹ کے ججز کی کمیشن میں شمولیت پر بھی اعتراض کیا گیاہے۔ فاضل جج نے کہا کہ وفاقیت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ صوبے آزاد اور خودمختار ہوں، عدالت کے ایسے ریمارکس وفاقیت کو تباہ کردیں گے ، ہم نے قانون پر چلنا ہے، روایت پر نہیں، سپریم کورٹ ،ہائیکورٹ تو کیا ؟ضلعی عدلیہ کی بھی نگرانی نہیں کر سکتی ،سپریم کورٹ صرف ہائی کورٹ کے فیصلے کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹاک شو میں وکیل صاحب سے طے شدہ سوالات کیے گئے تھے، ٹاک شو میں آڈیو مان لی تو استحقاق ختم ہوگیا،انھوں نے کہا ہو سکتا ہے آڈیو قیوم صدیقی اور وکیل صاحب نے خود لیک کی ہو،،کوئی اپنی گفتگو خود پبلک کردے تو بعد میں اعتراض نہیں کر سکتا،انہوں نے کہا کہ تمام لوگوں سے پوچھیں گے کہ انہوں نے آڈیو خود تو لیک نہیں کی ہیں، سمجھ نہیں آتا کہ شعبہ قانون کو ہو کیا گیا ہے؟ سب سے آسان کام ہے کہ جج پر الزام لگا دو، ججز کے پاس فوج ہوتی نہ پولیس صرف اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، ہم مزید آگے نہیں بڑھ سکتے، کمیشن کی مزید کارروائی نہیں کررہے ، گواہان سے معذرت خواہ ہوں ہم کاروائی آگے نہیں چلا سکتے، اٹارنی جنرل صاحب ہم معذرت خواہ ہیں، سپریم کورٹ کورٹ کا جوڈیشل آرڈر ہے اس لئے ہم اپنی کارروائی مزید جاری نہیں رکھ سکتے۔
لاہور عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا سنانے والے سیشن جج ناصر جاوید رانا کو 2004 میں جب وہ مجسٹریٹ کے عہدے پر...
لاہور عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا سنانے والے سیشن جج ناصر جاوید رانا کو 2004 میں جب وہ مجسٹریٹ کے عہدے پر...
کراچی جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کےساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون اور سابق پراسیکیوٹر نیب...
اسلام آ باد وفاقی کا بینہ نے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ ڈویژن کی رائٹ سائزنگ کی منظوری دیدی ہے۔ ذ رائع کے...
کراچی عمران خان کو احتساب عدالت سے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزاپر جیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے سابق...
کراچی جیو کے پروگرام ’’نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات اور رہنما...
اسلام آباد 190 ملین پائونڈ ریفرنس میں سزا ملنے کے بعد ردعمل دیتے ہوئے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے...
نیویارک امریکا میں پی ٹی آئی کے بعد عمران اور تحریک انصاف کیخلاف جوابی مہم شروع، امریکا میں پی ٹی آئی...