چیف جسٹس نے کمیشن معطل کر کے خود کو مزید متنازع بنا لیا،سینئرصحافی

28 مئی ، 2023

کراچی (ٹی وی رپورٹ) سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے کہا ہے کہ عدلیہ میں بھی کرپشن کی سب سے بڑی وجہ چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات ہیں، چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے، بنچ بنانے اور ججوں کا احتساب کرنے کا اختیار عدلیہ میں کرپشن کی بڑی وجہ ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کمیشن معطل کر کے خود کو مزید متنازع کردیا ہے۔حسنات ملک نے کہا کہ حکومت اور چیف جسٹس کے درمیان عدم اعتماد بہت زیادہ بڑھ چکا ہے، وکلاء تنظیموں کی سیاست کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔حسن ایوب خان نے کہا کہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ اختیاراتی جے آئی ٹی بنائی جائے گی، حکومت نے کمیشن بنا کر چیف جسٹس کو ٹریپ کیا ہے جس میں وہ پھنس گئے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عدلیہ کو کمزور کیا ہے۔عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ عدالتوں میں بہت سے کیسوں میں ناانصافیاں ہوتی نظر آتی ہیں، وکلاء کے بڑے بڑے چیمبرز ججوں کے بیٹوں اور دامادوں کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں، پابندی ہونی چاہئے کہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے کسی جج کا بیٹا یا داماد وکیل ہے تو وہ اس عدالت میں پریکٹس نہیں کرسکے۔سینئر صحافیوں نے یہ گفتگو جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کی۔ سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ آڈیوز جس تیزی سے لیک ہورہی تھیں اس کی تحقیقات ہونا ضروری تھی، حکومت نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چیف جسٹس سے پوچھے بغیر آڈیو لیکس پر کمیشن بنایا، حکومت جانتی تھی کمیشن پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا ردعمل کیا ہوگا، چیف جسٹس کے آڈیو لیکس کمیشن بنچ میں شامل ہونے سے حکومت کا مقصد پورا ہوگیا، حکومت ثابت کرنا چاہتی تھی کہ اعلیٰ ترین عدلیہ کے جج صاحبان پی ٹی آئی سے رابطوں میں ہیں ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کمیشن معطل کر کے خود کو مزید متنازع کردیا ہے۔ مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں بھی کرپشن کی سب سے بڑی وجہ چیف جسٹس کے بڑھتے ہوئے صوابدیدی اختیارات ہیں، چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے، بنچ بنانے اور ججوں کا احتساب کرنے کا اختیار عدلیہ میں کرپشن کی بڑی وجہ ہے، ازخود نوٹس نہ صرف ججوں بلکہ وکیلوں میں بھی کرپشن کی سب سے بڑی وجہ بن گیا ہے، چیف جسٹس چار لائن کی خبر پر ازخود نوٹس لے لے تو پرائیویٹ وکیل کروڑوں روپے فیس لے کر پیش ہوتے ہیں، جسٹس ثاقب نثار کے دور میں پانی کے ذخائر پر ازخود نوٹس لیا گیا، اس کیس میں بڑے بڑے وکیل کروڑوں روپے بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر عدالتوں میں پیش ہوئے، ازخود نوٹسز کی وجہ سے اربوں روپے کا کالا دھن فیسوں کی صورت وکیلوں کی جیبوں میں گیا، ماضی میں کئی چیف جسٹس صاحبان اس لیے ازخود نوٹس لیتے رہے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس ازخود نوٹس پر کس وکیل کو کون سی پارٹی کتنے کروڑ روپے فیس دے گی۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ جو وکلاء رکن پارلیمنٹ ہیں ان کی پریکٹس پر پابندی ہونی چاہئے، یہ لوگ اپنی سیاسی جماعت سے زیادہ اپنی وکالت کو اہمیت دیتے ہیں، وکیل رکن پارلیمنٹ جو قانون سازی کرتے ہیں اسی کے حق میں یا مخالفت میں عدالتوں میں بحث کرتے ہیں، سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹس میں ججوں اور کلاء کی آپس میں رشتہ داریوں کی معلومات ویب سائٹ پر ڈالی جائیں۔ سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ قانون میں نہیں کہ حکومت کمیشن بنانے کیلئے چیف جسٹس سے مشاورت کرے لیکن روایت ضرور ہے، ماضی میں کمیشن میں ججوں کو شامل کرنے سے پہلے چیف جسٹس سے پوچھا جاتا رہا ہے، حکومت اور چیف جسٹس کے درمیان عدم اعتماد بہت زیادہ بڑھ چکا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھی اعتماد نہیں ہے، بہت سے لوگ سمجھتے ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کمیشن میں شامل نہیں ہونا چاہئے تھا۔حسنات ملک کا کہنا تھا کہ وکلاء تنظیموں کی سیاست کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، بارز میں ایک گروپ حکومت کے دوسرا پی ٹی آئی کے قریب ہے، یہی وکیل عدالتوں سے پی ٹی آئی کو ریلیف لے کر دیتے ہیں، ریٹائرڈ ججوں کیلئے بھی کوڈ آف کنڈکٹ ہونا چاہئے، یہ ریٹائرڈ جج بہت زیادہ پنشن لینے کے ساتھ کروڑوں روپے کنسلٹنسی سے بھی کماتے ہیں، کراچی کے ایک ریٹائرڈ جج نے سپریم کورٹ کو اپنا 56ہزار کا پانی کا بل ادا کرنے کیلئے کہا ہے۔سینئر صحافی حسن ایوب خان نے کہا کہ چیف جسٹس نے آڈیو لیکس کمیشن کے معاملہ پر مفادات کے تصادم کو نظرانداز کیا، لیک ہونے والی آڈیوز میں چیف جسٹس کی ساس کی آڈیو بھی ہے، چیف جسٹس اس معاملہ پر خود بنچ میں شامل ہوگئے ، میری اطلاعات کے مطابق آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ اختیاراتی جے آئی ٹی بنائی جائے گی، اس جے آئی ٹی میں ایف آئی اے اور حساس ادارے کے لوگ شامل ہوں گے، حکومت نے کمیشن بنا کر چیف جسٹس کو ٹریپ کیا ہے جس میں وہ پھنس گئے ہیں۔ حسن ایوب خان کا کہنا تھا کہ وکلاء کے سول جج سے لے کر چیف جسٹس تک تعلقات ہوتے ہیں، ثاقب نثار کے دور میں کچھ ایسے وکلاء تھے جنہیں اس کے بعد کبھی کیس کرتے نہیں دیکھا، اس زمانے میں انہیں جس طرح کیس ملتے تھے آج نہیں مل رہے، سابق چیف جسٹس نثار لاہور میں اکیلے بیٹھ کر کیسوں پر نوٹس کرتے تھے، وہ تین چار غریبوں کو پکڑتے باقی بڑی بڑی پارٹیوں کو بلالیتے، انہیں نوٹس کر تے پھر وہ کیس داخل دفتر کردیا جاتا تھا۔ حسن ایوب خان کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد سپریم کورٹ میں جو معاملات دھونس زبردستی سے چل رہے ہیں وہ ریورس ہوں گے، ڈسٹرکٹ کورٹس ، ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں ججوں کی گروپنگ پائی جاتی ہے۔ نمائندہ جیو نیوز عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ عدالتوں میں بہت سے کیسوں میں ناانصافیاں ہوتی نظر آتی ہیں، عوام سے پوچھ لیں نچلی عدالتوں میں مقدمات کی تاریخ پیسے دیئے بغیر مل سکتی ہے، ضمانت لینے کیلئے مخصوص وکیل سے رابطہ کرنے کیلئے کہا جاتا ہے، وکلاء کے بڑے بڑے چیمبرز ججوں کے بیٹوں اور دامادوں کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں، سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج کے بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس آیا ہے، ان کے دو بیٹوں کو چھوٹے سے عرصے میں چار سو پانچ سو کیسز ملے ہیں، ان جج صاحب نے اپنے بیٹوں کے چیمبرز کا افتتاح بھی خود کیا، ایک جج کے بچے اسی ہائیکورٹ میں پریکٹس کررہے ہیں تو دوسرے وکلاء کو کہاں موقع ملے گا، ایک سابق چیف جسٹس کے داماد کے پاس اچانک مقدمات کی ریل پیل ہوگئی، مبینہ طور پر وہ سابق جج اپنے چھوٹے بھائی سے بھی چار سال چھوٹے تھے، انڈیا کی طرح پاکستان میں بھی پابندی ہونی چاہئے کہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے کسی جج کا بیٹا یا داماد وکیل ہے تو وہ اس عدالت میں پریکٹس نہیں کرسکے، وکیلوں کی فیس کے حوالے سے حد ہونی چاہئے، حکومت اٹارنی جنرل آفس میں سیاسی بنیادوں پر وکلاء کی فوج بھرتی کرتی ہے۔