8اکتوبر کو عام انتخابات: الیکشن کمیشن پرعزم ، حکمران اتحاد کے متضاد اشارے

07 جون ، 2023

اسلام آباد( عمرچیمہ) حکمران اتحاد جہاں عام انتخابات کے نظام الاوقات کے حوالے سے متضاد اشارے دے رہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان رواں سال 8اکتوبر کو انتخابات کرانے کےلیے پرعزم ہے بشرطیکہ وفاقی حکومت کوئی ایسی تکنیکی رکاوٹ نہ پیدا کردے جس کی توجیہہ وہ آئین سے حاصل کر رہی ہو۔ ڈیموکریٹک الائنس پاکستان کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ روز کہا تھا کہ انتخابات میں جانےسے قبل ملک کی اقتصادی صورتحال پر غور ہونا چاہیے اور ان کے اس فرمودہ کی اقتصادی ایمرجنسی کے لبادے میں ایک سال کےلیے موجودہ حکومت کی مدت میں توسیع کے منصوبے کے طور پر تشریح کی جارہی ہے۔علاوہ ازیں اسمبلی توڑ کربھی حکومت اپنی مدت میں ایک ماہ اضافہ کرسکتی ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی ڈیجیٹل مردم شماری کی اثابت ( دیانتداری) پرسوال اٹھارہے ہیں۔ فضل الرحمن نے البتہ کہا کہ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ حکمران اتحاد کے اتفاق رائے سے ہوگا۔ ادھر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بات کریں تو وہ 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کےلیے پرعزم ہے۔ انتخابات اس وقت کرانے کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے اس وقت کیا تھا جب اس نے قانون فانذ کرنے والی ایجنسیوں اور پاکستانی فوج کی رپورٹوں کی بنیاد پر امن و امان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے انتخابات موخر کیے تھے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ 4 سے 5 ماہ میں فوجی اپنی مصروفیات سے چھٹکارا حاصل کرچکے ہوں گے اور آزادانہ و شفاف انتخابات کرانے کےلیے مددکرنے کےلیے تیار ہوں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ وہ اپنا وعدہ نبھانے کےلیے اپنا اختیار استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ بالفرض حکومت اگر تعاون نہیں کرتی تو الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 220 کو بروئے کار لائے گا۔آئین کی اس شق کے مطابق ’’ فیڈریشن اور صوبوں کی تمام انتظامی اتھارٹیز کمشنر اور الیکشن کمیشن کے افعال کی انجام دہی میں اس کی معاونت کے پابند ہیں‘‘۔ الیکشن کمیشن کے عہدیدار سے جب یہ پوچھا گیا کہ اگر اس شق کو بروئے کار لانے کے باوجود حکومت تعاون نہیں کرتی تو کیا ہوگا؟ تو اس پر جواب دیتےہوئے الیکشن کمیشن کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں بالخصوص ایسی صورتحال میں جب کہ عدالتی احکامات کی بھی حکم عدولی ہوچکی ہے۔ حکومتی عہدیدار کے مطابق ڈیجیٹل مردم شماری میں تاخیر سے انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ ڈیجیٹل مردم شماری ابھی مکمل نہیں ہوئی اور حکمران اتحاد کے مختلف حصہ داربالخصوص متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلزپارٹی جاری مردم شماری کے عمل میں دیانتداری پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ مردم شماری کا جب سرکاری طور پر اعلان ہوجائے گا تو نئے عام انتخابات کےلیے حلقہ بندیاں ایک آئینی تقاضا ہوں گی ۔ یہ معاملہ اس وقت بھی سامنے ایا تھا جب سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی متنازع رولنگ پر سوموٹو نوٹس لیا تھا اور جس کے ذریعے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کو روکا گیا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے کہا تھا کہ آیا اگر اسے عدالت حکم دے تو کیا وہ انتخابات کر سکتا ہے تو اس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے مردم شماری کے لحاظ سے حلقہ بندیاں نہیں کرسکا حالانکہ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی حکومت کو ایک سال میں کئی خطوط لکھے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس نکتے کو تسلیم کیا تھا۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کا آئیڈیا بھی پی ٹی آئی کی حکومت نے ہی پیش اور منظور کیا تھا تاہم وہ اس وقت اس پر کام شروع نہیں کر پائی تھی اس پر موجودہ حکومت کے دور میں چند ماہ پہلے کام شروع ہوا تھا۔ اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ حکومت ڈیجیٹل مردم شماری رواں ماہ یا آئندہ ماہ اعلان کرتی ہے اس کے مطابق حلقہ بندیاں کرنے کےلیے مزید چھ ماہ درکار ہوں گے۔ بالفرض اگر حکومت اسے قومی اسمبلی کی موجودہ مدت کی تکمیل سے چند دن قبل کرتی ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان رواں برس انتخابات کرانے کا اہل نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر حکومت اپنی ٹرم مکمل ہونے دیتی ہے اور الیکشن کمیشن 60 دن میں انتخابات کرانے کا پابند ہے تاہم اگر اسمبلی کو اس کی مدت تکمیل سے چند دن قبل تحلیل کردیاجاتا ہے تو اس سے اسے مزید ایک ماہ مل سکتا ہے اور اس حساب سے چونکہ انتخابات 90 دن کے اندر ہونے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ رواں سال نومبر میں جا کرہوں گے۔