چیف جسٹس انکوائری چلنے دیتے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا،عطاءتارڑ

07 جون ، 2023

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی عطاء تارڑ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس قانونی طور پر انکوائری چلنے دیتے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا، سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ یہ بات طے ہے کہ الیکشن سے قبل عمران خان نااہل ہوچکے ہوں گے،سینئر صحافی دی نیوز مہتاب حیدر نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیرونی فائنانسنگ کی یقین دہانیوں کے بغیر اسٹاف لیول معاہدہ بہت مشکل ہے۔وزیراعظم کے معاون خصوصی عطاء تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس اور خواجہ طارق رحیم اپنی ساس اور اہلیہ کی آڈیو نہ پہچانیں تو میں افسوس ہی کرسکتا ہوں، چیف جسٹس کی ساس نے جسٹس منیب اختر کا بھی نام لیا اور کہا کہ میں نے منیب کو بھی کہا ہے، چیف جسٹس کی ساس آفیشل فیصلوں کے حوالے سے اپنے داماد پر بھی اثرانداز ہورہی ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو آڈیوز کے مصدقہ ہونے کے پیچھے نہیں چھپنا چاہئے تھا، چیف جسٹس کو شفافیت کا ثبوت دیتے ہوئے بنچ سے علیحدہ ہوجانا چاہئے تھا۔ عطاء تارڑ کا کہنا تھاکہ حکومت کے پاس واٹس ایپ ریکارڈ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، کسی ہیکر، ویب سائٹ یا ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے، کسی اکاؤنٹ کو بلاک کروانے کیلئے ہمیں ٹوئٹر، فیس بک، یوٹیوب سے بات کرنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔ عطاء تارڑ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آڈیو ریکارڈنگ اور پرائیویسی کے حوالے سے استدعا پر موجودہ چیف جسٹس نے اسے مبینہ نہیں کہا تھا بلکہ ان کا کہنا تھا ایسا تو ہوتا ہے اسے چلنے دینا چاہئے، اب چیف جسٹس بندیال کے اپنے اوپر بات آئی ہے تو آڈیو کے مصدقہ ہونے کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ عطاء تارڑ کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس پر کمیشن اسی لیے بنایا تھا تاکہ آڈیوز کے مصدقہ ہونے کا پتا چل سکے، واٹرگیٹ اسکینڈل بھی آڈیو ٹیپس تھیں جسے چھپانے کے الزام میں رچرڈ نکسن گھر چلے گئے تھے، ججوں کی فیملی کا معاملہ آئے توا ن کے بنچ سے اٹھ جانے کی بھی مثالیں ہیں، چیف جسٹس نہ بنچ سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں نہ کوئی نیا بنچ بنانا چاہتے ہیں، حکومت سینئر ترین جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا اس پر کس بات کے خدشات اور تحفظات ہیں، چیف جسٹس کے فیملی ممبرز کے ذہن سامنے آچکے ہیں، چیف جسٹس کے فیملی ممبرز کوبنچ کے دوسرے ججوں سے رابطہ کرکے آفیشل معاملات پر رائے دینے کا کیا اختیار ہے، عدالت میں آڈیوز کے اہم کردار عبدالقیوم صدیقی اور عابد زبیری موجود تھے انہیں بلا کر آڈیوز کے مصدقہ ہونے سے متعلق پوچھا جاسکتا تھا، چیف جسٹس قانونی طور پر انکوائری چلنے دیتے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا۔سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ نو مئی کے واقعات کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی ریڈ لائن پی ٹی آئی کی قیادت ہے، تمام پی ٹی آئی رہنماؤں کو ایک ہی پیغام دیاجارہا ہے کہ نو مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کے ساتھ رہنا کسی صورت گوارا نہیں کیا جائے گا، پارٹی چھوڑنے والے رہنماؤں پر کسی خاص پارٹی میں شمولیت کیلئے جبر نہیں ہے، یہ بات طے ہے کہ الیکشن سے قبل عمران خان نااہل ہوچکے ہوں گے، عمران خان خود الیکشن میں نہیں ہوں گے تو ان کے نام پر ووٹ لینے یا نہ لینے کا سوال ہی نہیں ہوگا۔سینئر صحافی دی نیوز مہتاب حیدر نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیرونی فائنانسنگ کی یقین دہانیوں کے بغیر اسٹاف لیول معاہدہ بہت مشکل ہے، حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کر کے جو سگنل دیا ہے آئی ایم ایف پروگرام کیلئے اس سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے اعلیٰ عدالتی شخصیات سے جڑی مبینہ آڈیوز پرا ہم سماعت کی ہے، مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے درخواستیں دائر کی تھیں، حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر اعتراض کیا تھا کہ مبینہ آڈیوزان ججوں سے متعلق ہیں اس لیے وہ اس کیس کی سماعت نہ کریں، آج چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے اس اعتراض پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے،شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ دوران سماعت چیف جسٹس اور دیگر ججوں کی جانب سے آڈیوز کے مصدقہ ہونے پر سوالات اٹھائے گئے، اہم بات یہ ہے کہ جب یہ سوالات اٹھائے جارہے تھے تو کمرہ عدالت میں آڈیو کے دو اہم کردار جیو نیوز کے نمائندہ خصوصی عبدالقیوم صدیقی اور درخواست گزار عابد زبیری عدالت میں موجود تھے ا ن سے آڈیوزکی صداقت کا پوچھا جاسکتا تھا، اہم بات یہ ہے کہ آڈیوز میں موجود اکثر کرداروں نے آڈیوز کے مصدقہ ہونے پر سوالات بھی نہیں اٹھائے ہیں، عبدالقیوم صدیقی کی تحریک انصاف کے وکیل خواجہ طارق رحیم سے بات چیت کی آڈیو لیک ہوئی جس میں وہ عمران خان کے کیس کے حوالے سے بات کررہے تھے، اسی دن ہمارے پروگرام میں عبدالقیوم صدیقی نے آڈیو میں ہونے والی بات چیت کی تصدیق کی، خواجہ طارق رحیم نے بھی عبدالقیوم صدیقی کی تصدیق کی تردید نہیں کی، اسی طرح آڈیولیکس میں ایک اور اہم کردار خواجہ طارق رحیم کا ہے جو دوسری آڈیو میں سامنے آتا ہے جن کی اپنی بھی آڈیو لیک ہوئی جبکہ ایک آڈیو خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ اور چیف جسٹس کی ساس کی بھی ہے، خود خواجہ طارق رحیم نے عبدالقیوم صدیقی کے یوٹیوب چینل سے بات کرتے ہوئے اپنی اہلیہ اور چیف جسٹس کی ساس کی آڈیو کی تصدیق کی تھی، اسی طرح 29اپریل کو جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے تصدیق کی کہ جو آڈیو لیک ہوئی ہے اس میں آواز ان کے بیٹے کی ہی ہے مگر اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، 16فروری کو چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ آڈیو میں کوئی غلط بات نہیں کی گئی ہے، محمد خان بھٹی کیس پر وکیل سے گفتگو کو ٹیپ کر کے غلط رنگ دیا گیا، عابد زبیری نے کہا کہ میرے حوالے سے آڈیو کو توڑ مروڑ کو پیش کیا جارہا ہے، ان تینوں کرداروں نے آڈیو میں اپنی آواز کی تردید نہیں کی۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن کیخلاف لاہور ہائیکورٹ کے ایک حکمنامے کو اضافی دستاویز کے طور پر سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے جمع کرایا گیا ہے، اس حکمنامے میں آڈیواور ویڈیو ریکارڈنگز کو اس کی سورس اور اونرشپ کے بغیر ملزم کیخلاف ناقابل قبول ثبوت قرار دیا گیا ہے، لاہور ہائیکورٹ کے حکمنامے کا ایک دلچسپ پس منظر ہے، یہ حکمنامہ جنوری 2023ء کے ایک واقعہ سے متعلق ہے، سولہ جنوری کو لاہور کے ایک اسکول میں آٹھویں جماعت کی طالبات کی ایک ویڈیو وائرل کی گئی، جس میں آٹھویں جماعت کی طالبہ کو اسی اسکول کی چار دیگر طالبات بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنارہی تھیں، اس افسوسناک واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی چلی، بعد میں متاثرہ طالبہ کے والدین نے تشدد کرنے والے طالبات کیخلاف ایف آئی آر درج کروائی، مگر تشدد کرنے والی طالبات میں سے ایک طالبہ نے نیوز چینلز میں اس ویڈیو کو نشر کرنے کیخلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا کیونکہ ان طالبات کی عمر اٹھارہ سال سے کم تھی اور ان کے چہروں کو بغیر بلور کیے کچھ میڈیا چینلز نے چلادیا تھا، دو جون کو جسٹس شاہد جمیل نے حکمنامہ جاری کیا جس میں قرار دیا کہ یہ ویڈیو پاکستان کے اندر اور باہر کہیں سے اپ لوڈ نہ کی جائے، جسٹس شاہد جمیل نے متعلقہ اور ذمہ دار حکام کو اس کیس میں فوری ایکشن نہ لینے پر توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ بھی دیا، یہاں تک اس حکمنامہ میں کوئی غیرمعمولی چیز نہیں دکھائی دی کیونکہ اس میں بیشتر آبزرویشنز ایک مخصوص کیس سے متعلق تھے اور ہر شخص کے پاس پرائیویسی کا حق موجود ہے، مگر اسی حکمنامے میں آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ سے متعلق ایک عمومی آبزرویشن بھی دی گئی جسے سیاسی کیسوں میں استعمال بھی کیا جارہا ہے، جسٹس شاہد جمیل نے حکمنامے میں لکھا کہ کسی بھی آڈیو یا ویڈیو کو اس کی سورس اور اونرشپ کی غیرموجودگی میں ملزم کے خلاف کارروائی میں ثبوت کے طور پر نہیں لیا جاسکتا اور جس شخص کیخلاف آڈیو یا ویڈیو لیک کی گئی وہ شخص ملزم نہیں بلکہ وکٹم ہے، اس آبزرویشن پر سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ یہ ایک بہت جنرلائز اسٹیٹمنٹ ہے، اگر کچھ کیسوں میں جس کیخلاف آڈیو یا ویڈیو لیک کی گئی ہو وہ وکٹم ہوسکتا ہے تو بہت سے کیسوں میں وہ ملزم بھی ہوسکتا ہے، حالیہ وقتوں میں کئی مثالیں موجود ہیں جہاں ویڈیو اور آڈیو کے ذریعہ مختلف جرائم کی نشاندہی کی گئی، امریکی سیاہ فام جارج فلائیڈ کا کیس اس حوالے سے کلاسک مثال ہے، مئی 2020ء میں امریکی سیاہ فام شہری جارج کلائیڈ کو پولیس نے اپنی تحویل میں لیا، جارج فلائیڈ کی طرف سے مزاحمت کے بغیر ہی ایک سفید فام پولیس افسر نے آٹھ منٹ سے بھی طویل وقت تک اپنا گھٹنا جارج فلائیڈ کی گردن پر رکھا جس کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی، چونکہ اس واقعہ کی ویڈیو ز موجود تھیں جس کی وجہ سے انہیں ڈپارٹمنٹ نے معطل کردیا۔