90 روز میں انتخابات فیصلہ تاریخ میں رہے گا،پنجاب الیکشن کیس اور ریویو ایکٹ کے خلاف درخواستیں ایک ساتھ سنیں گے، سپریم کورٹ

08 جون ، 2023

اسلام آباد(جنگ نیوز)سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ90روز میں انتخابات فیصلہ تاریخ میں رہے گا،پنجاب الیکشن کیس اور ریویو ایکٹ کے خلاف درخواستیں ایک ساتھ سنیں گے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہعدالتی دروازے پر احتجاج انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ آئین ایک خوبصورت دستاویز ہے، آئین پر سب متفق ہیں لیکن آئین کے نفاذ پر سب کلیئر نہیں ہیں، جو کچھ ملک میں ہوا، میں 9 مئی کا حوالہ دے رہا ہوں، 14 مئی سے متعلق فیصلہ واپس نہیں لیا جاسکتا۔90 روز میں انتخابات آئینی تقاضا ہے، وقت گزرچکا، اگرچہ 90 روز نہیں پھر بھی ہم نے اس تقاضے کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی۔14 مئی کو انتخابات کا فیصلہ اب واپس لینا ممکن نہیں، انتخابات تو نہیں ہوئے لیکن ہم نے اصول طے کردیے کہ کن حالات میں انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں اور کن میں نہیں۔ الیکشن کمیشن نے ہمیں 8 اکتوبر انتخابات کی تاریخ دی، پھر کہا کہ سانحہ 9 مئی کے بعد حالات تبدیل ہوچکے ہیں، الیکشن کمیشن کی صلاحیت ہونی چاہیے کہ جو اور جیسے بھی حالات ہوں وہ الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنائے ۔پنجاب میں انتخابات کے عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے کی، جس کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نیا قانون بنا، اس پر آپ کو نوٹس کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز قانون کے خلاف کیس اور پنجاب الیکشن نظر ثانی کیس دونوں کو اکٹھا سنیں گے۔ الیکشن کمیشن نے مکمل انصاف کی فراہمی کے بارے میں بہت اچھے دلائل دیے۔یہ بالکل نیا کیس نہیں ہے، یہ ایک قومی معاملہ ہے، کیا آئینی ہدایات کو پس پشت ڈالا جاسکتا ہے۔درخواست گزار کے وکیل علی ظفر نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ آئین سے متصادم ہے، جس کی شق 5کہتی ہے کہ 184کی شق 3کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہوگا۔میری استدعا ہے کہ شق 5 کا اطلاق پنجاب کے انتخابات پر نہیں ہوسکتا۔مجھے یقین ہے کہ عدالت اس قانون کو کالعدم قرار دے گی۔اگر قانون برقرار رہے گا تو 5رکنی بنچ تشکیل دیا جائے گا۔پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس کو پرانے قانون کے تحت سناجائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کا فیصلہ تھا، اس وقت کو واپس نہیں لایا جاسکتا۔اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ 9مئی کے واقعات کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل یقین سے جواب نہیں دے سکے کہ 8اکتوبر کو الیکشن ہوں گے۔ماضی میں توسیع دی جاتی رہی، اس کی مثالیں موجود ہیں، ہم نے اس کو بھی دیکھنا ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ 15مئی کو مجھے لگا کہ آئین مرگیا۔ مجھے لگا کہ آئین قتل ہوگیا ہے۔ 2صوبوں کے عوام اسمبلیوں میں عوامی نمائندگی سے محروم ہیں۔ آئین کا اطلاق لازمی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کوئی جج یہ کہہ سکے کہ 90دنوں کے بعد انتخابات کرائے جائیں۔ سپریم کورٹ اس کیس کا فیصلہ کرے۔ سول جج کا بھی احترام ہونا چاہیے۔ مجھے سپریم کورٹ کے ججوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔وکیل نے کہا کہ قانون سازی 5 منٹ میں کی گئی۔ اپیل کا حق اچھی چیز ہے، اپیل کا حق آئینی ترمیم کے ذریعے ملنا چاہیے۔ قانون سازی کرکے آئین کو تبدیل کرلیا گیا۔ 17ویں صدی سے اپیل کا لفظ استعمال ہورہا ہے۔ 1980ءمیں فل کورٹ بیٹھا اور طے کیا کہ نظر ثانی کے یہ اختیارات ہیں۔ نظر ثانی کے لفظ کو تبدیل کرکے آئین کو تبدیل کیا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ایک اچھی چیز بھی ہے۔ آرٹیکل 184 کی شق 3کے فیصلے تک محدود انداز میں اپیل کا حق دیا گیا۔ایک اچھی چیز اور ہے، حکومت اور حکومتی اداروں نے فیصلہ کیا ہے کہ عدالت کے ذریعے بات کرنی ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے، یہ حقیقت پسندی کو عیاں کرتی ہے۔ پہلے تو سپریم کورٹ کے دروازے پر احتجاج کیا جاتا رہا۔ جو حق میں مداخلت کرتا ہے اس کے نتائج ہیں۔ عدالتی دروازے پر احتجاج تو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ علی ظفر درخواست دیں، انہیں نوٹس جاری ہو، پھر انہیں سنا جائے۔ سپریم کورٹ درخواست دائر کرنے سے قبل نہ سنے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے۔بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل سمیت فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔ عدالت نے کہا کہ منگل کے روز سے روزانہ کی بنیاد پر کیس سن کر فیصلہ کریں گے۔