مطالعہ پاکستان

بلال الرشید
08 جون ، 2023
حالیہ برسوں میں ایک طنزیہ اصطلاح سامنے آئی ہے ’’مطالعہ پاکستان‘‘۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ بچپن میں جو چیزیں او ر پاکستان کی جو قابلِ فخر چیزیں آپ مطالعہ پاکستان میں پڑھتے رہے ہیں، وہ جھوٹ پر مبنی ہیں۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ اس دفعہ سردیوں میں آپ کو گیس کی قلت کا سامنا ہو تو پائپ مطالعہ پاکستان کی کتاب سے جوڑ لیجئے گا، وہاں وسیع ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کے گیس کے دستیاب ذخائر سکڑ رہے تھے۔ مشرف دور میں مگر ملک کے طول و عرض میں کئی ملین گاڑیاں گیس پر منتقل کر دی گئیں۔ کئی ملین گیس کے سلنڈر گاڑیوں میں نصب کرائے گئے۔ آج وہ زنگ آلود ہیں۔ کیا ہے کوئی پوچھنے والا کہ سرمائے کے اس خوفناک زیاں کا ذمہ دار کون ہے؟
ہمیں یہ پڑھایا گیا کہ پاکستا ن کے پاس دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ یہ مگر کسی نے نہ بتایا کہ یہ انگریز کا بنایا ہوا ہے ، ریلوے کی طرح ۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہم نے انگریز کے قائم کردہ اداروں کو تباہ کیا ، سنوارا کسی کو نہیں ۔انگریز ہماری سرزمین میں اتنے اعلیٰ نظام تشکیل دے سکتاہے اور ہم انہیں سنبھال بھی نہیں سکتے۔
ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں ۔ ملک دو لخت ہو گیا ۔ بتایا گیا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مشرقی پاکستان دفاعی طور پر ناقابلِ دفاع تھا ۔ایک پیالہ نما ریاست ، جو ہندوستان کے اندر دھری تھی ، مغربی پاکستان سے 2200کلومیٹر دور اور اگر سمندری راستے سے دیکھئے تو پانچ ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ۔ بھارت سے مشرقی پاکستان کا فاصلہ صفر کلومیٹر تھا۔ اس کی افواج تین اطراف سے اس پیالہ نما ریاست کو گھیرے ہوئے تھیں ۔ چوتھی طرف سمندر ہے۔ مغربی پاکستان کی افواج اگر سمندری راستہ اختیار کرتیں تو پانچ ہزار کلومیٹر کے اس طویل سفر میں بھارتی بحریہ سے بھرپور جنگ جیتنے کے بعد ہی مشرقی پاکستان پہنچ سکتی تھیں ۔یہ کہہ کر ہم نے دل کو تسلی دی کہ ابتدا میں اقبالؔ نے بھی دو آزاد مسلم ریاستوں کا خواب دیکھا تھا۔جنگی طور پر مشرقی پاکستان کا دفاع ممکن ہی نہ تھا۔
اس کے بعد مگر کیا ہوا ۔ ہم سے جدا ہونے والا ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پہ چل پڑا ۔ یہ دن بھی ہمیں دیکھنا تھا کہ پاکستان سے جدا ہونے والے بنگلہ دیش کے پچاسویں یومِ آزادی پر بھارتی وزیرِ اعظم مہمانِ خصوصی تھا۔آج ایک بنگلہ دیشی ٹکا پاکستانی ڈھائی روپوں کے برابر ہے ۔معاشی ترقی کی شرح پاکستان سے کئی گنا زیادہ ۔ پاکستان تکنیکی طور پر ڈیفالٹ کر چکا ہے ۔ چند ارب ڈالر کے لئے ہم آئی ایم ایف سمیت پوری دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلائے بیٹھے ہیں ۔ عین اسی وقت بنگلہ دیش کے پاس 24ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ موجود ہے ۔بھارت کے پاس 578ارب ڈالر !
ہاں ہمیں ایک چیز پر ناز تھا کہ بنگلہ دیش اور بھارت کی نسبت پاکستان میں بات کرنے کی آزادی کہیں زیادہ تھی ۔ اب الحمد للہ یہ حسرت بھی تمام ہوئی ۔آج منہ کھولیں تو پولیس باہر موجود ہوتی ہے ۔ عدالت سے رہائی پانے والے کو دوسرے کیس میں اٹھا لیا جاتا ہے ۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف سمیت سینکڑوں محافظوں کے جلو میں گھر سے باہر نکلنے والی ہماری اشرافیہ یورپ کی سڑکوں پہ مسکینوں کی طرح تنہا نظر آتی ہے ۔برطانیہ میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے فلیٹ کے باہر ہر لمحہ ہنگامہ آرائی جاری رہتی ہے ۔ ساری دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہورہا ہے ۔برآمدات میں ہم اوپر اعلیٰ اور نیچے گھٹیا مال رکھ کر بھیجتے اور نتیجتاً ہر جگہ سے پابندیوں کا سامنا کرتےہیں ۔بیرونِ ملک ہماری شہرت یہ ہے کہ پاکستانی اوّل درجے کے ہڈحرام واقع ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی اور بنگلہ دیشی لیبر کو ہر جگہ ترجیح دی جاتی ہے ۔مطالعہ پاکستان کا ایک اور دروغ یہ ہے کہ پاکستان اتنا خوبصورت ملک ہے کہ سوئٹزرلینڈ اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا بیان جاری کرنے کیلئے آدمی کا جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہونا ضروری ہے۔ سیاحت کا یہاں یہ عالم ہے کہ برف باری کے سیزن میں سڑکیں مکمل طور پر بند ہو جاتی اور ہزاروں گاڑیاں پھنس جاتی ہیں ۔جنوری 2022ء میں اکیس افراد برف باری کے ہنگام ،مری کی سڑکوں پر گاڑیوں میں ہلاک ہو ئے ۔سیاحتی مقامات پر پاکستانی اتنا کچرا پھینکتے ہیں کہ بیرونِ ملک سے آنے والے افراد سکتے کے عالم میں دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔ آبپارہ مارکیٹ اور مارگلہ ہلز میں جرمن اور برطانوی سفارتی حکام کو کچرا اٹھاتے دیکھا گیا۔ شرم ہمیں پھر بھی نہ آئی ۔ لوگ کھا پی کر کچرا گاڑی سے باہر سڑک پہ پھینک دیتے ہیں ۔ اگر کوئی منع کرے تو اسے استہزا کا سامنا کرنا ہوتا ہے ۔
ہاں، ایک کارنامہ ناقابلِ یقین ہے اور وہ یہ کہ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بنا لئے۔ جہاں تک اس ضمن میں چوری کا تعلق ہے تو زیادہ تر جوہری اقوام نے اسی طرح ایٹمی صلاحیت حاصل کی ۔ ایٹمی ہتھیار بنالینے سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستانیوں میں صلاحیت کی کمی نہیں ،بشرطیکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آکر سنجیدگی سے کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیں ۔ سچ کا البتہ ہمیں سامنا کرنا چاہئے ۔ اصلاح اس کے بعد ہی ممکن ہے ۔