رئیل اسٹیٹ،سگریٹ ،چائے اوردوائوں کے شعبوں میں سالانہ 956 ارب روپے ٹیکس چوری

08 جون ، 2023

اسلام آباد( تنویر ہاشمی ، کامرس رپور ٹر ) ملک کےپانچ شعبوں رئیل سٹیٹ ، سگریٹ، ٹائرز و آئل لبریکنٹس ، چائےاورادویات میں سالانہ 956 ارب روپے کی ٹیکس چوری کا انکشاف ہوا ہے، رئیل سٹیٹ سیکٹر میں 500ارب روپے، سگریٹ انڈسٹری میں 240 ارب روپے ، چائے کے شعبے میں 45 ارب روپے، ادویات میں 65ارب، ٹائرز اورلبریکنٹس کے شعبے میں 106 ارب کی ٹیکس چوری ہو رہی ہے، ریسرچ ادارے ایسپاس نے ٹیکس چوری سے متعلق رپورٹ جاری کر دی ، رپورٹ کے مطابق رئیل سٹیٹ سیکٹر میں ٹیکس چوری کمزور قانون سازی، پراپرٹی کی خریداری میں ہیر پھیر اور نقد لین دین سے ہوتی ہے۔ رئیل سٹیٹ سیکٹر میں دستاویزات اور قوانین کے نفاذ سے ٹیکس وصولی کی مد میں مزید 500 ارب تک حاصل ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف ہو اہے کہ سگریٹ انڈسٹری میں ٹیکس چوری سے سالانہ 240 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ٹائروں کی مارکیٹ کا 65 فیصدحصہ غیر قانونی یا سمگل شدہ ٹائروں پر مشتمل ہے۔ جبکہ اس وقت کل کھپت کا صرف 20 فیصد مقامی طور پر تیار کیاجا رہا ہے اور 15 فیصد قانونی طور پر درآمد کیا جاتا ہے، ٹائر کی درآمد کا 25 فیصد انڈر انوائس ہے جس سے حکومت کو مجموعی طور پر 50 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہورہاہے۔ رپورٹ کے مطابق لبریکنٹس انڈسٹری نے گزشتہ مالی سال میں 187 ارب روپے ٹیکس ادا کیا تھا۔اس وقت لبریکنٹس انڈسٹری کا 70 فیصد قانونی جبکہ30 فیصد مارکیٹ غیر قانونی ہے۔ غیر قانونی لبریکنٹس کی تجارت پر قابو پانے سے حکومتی خزانے میں 56 ارب روپے کا اضافہ ممکن ہے۔مجموعی طور پر اس وقت ٹائر اور آٹو لبریکنٹ سیکٹر میں کل 106 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی جا رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق فارماسیوٹیکل سیکٹر غیر قانونی ادویات کے باعث قومی خزانے کو سالانہ قریباً 60 سے 65 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ جس کی اہم وجہ غیر رجسٹرڈ اور غیر لائسنس یافتہ فارمیسی سیکٹر اور غیر قانونی ادویات سے متعلقہ اداروں کی جانب سے قوانین پر عمل درآمد نہ کروانا ہے۔ اس وقت چائے کے شعبے میں ٹیکس چوری کا تخمینہ 45 ارب روپے سالانہ ہے،بڑے پیمانے پر درآمد کنندگان ملک کی چائے کی تقریباً 55 سے 60فیصد طلب پوری کرتے ہیں، جبکہ چھوٹے تاجر بقیہ 40 سے 45 فیصد طلب کو پورا کرتے ہیں۔رپورٹ کی تجاویز کے مطابق صرف ان پانچ شعبوں میں 956 ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چوری پر قابو پانے سے پاکستان پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کی کل لاگت کو پوراکیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس رقم سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مکمل مالی اعانت بھی کی جاسکتی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ صرف ان پانچ شعبوں میں ٹیکس چوری روکنے سے وفاقی تعلیمی بجٹ میں 10 گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔جبکہ صرف یہی رقم مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے بھی کافی ہے۔ 956 ارب روپے کی یہ رقم 1700 کلومیٹر سے زائد موٹر ویز کی تعمیر کیلئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ وزیر مملکت اور چیئرمین ریفارمز اینڈ ریسورس موبلائزیشن اشفاق تولہ نے کہا کہ سمگلنگ اور ٹیکس چوری ایک اہم مسئلہ ہے جس کے خاتمے کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں، خود کار نظام اور نچلی سطح پر مالیاتی شمولیت کےذریعے معاشی اہداف حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔