خرچے کم آمدان بڑھائیں ،قرضوں کی ری پروفائلنگ کریں،ماہرین معیشت

10 جون ، 2023

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کی خصوصی بجٹ ٹرانسمیشن میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے ماہرین معیشت نے کہا ہے کہ خرچے کم کريں ، آمدنی بڑھائیں، قرضوں کی ری پروفائلنگ کريں، سابق چيئرمين ايف بی آر شبر زيدی نے کہا کہ قرضوں کی ری پروفائلنگ کرنی پڑے گی ، 6مہينے سے آئی ايم ايف کے ساتھ پنگ پانگ کھیل رہے ہيں ، اس کو بند کريں ، ملک ميں 30 لاکھ انڈسٹريل اور کمرشل کنکشن ہيں جو پاکستان کے سرکاری اداروں سے بجلی اور گيس لے رہے ہيں ، ليکن سيلز ٹيکس ادا کرنے والے 70 ہزار يا اس سے بهی کم ہيں ، شبر زيدی نے کہا کہ جو لوگ بجٹ تيار کررہے ہيں ان کو اچھی طرح اندازه ہے کہ آگے کيا ہونے والا ہے ، اس پر آپ پرده ڈالنا چاہتے ہيں تو ڈال ليں ليکن آپ يہ پرده ڈال نہيں سکتے ، ماہر معيشت خاقان نجيب نے کہا ٹيکس پر بات ہوتی ہے ليکن اخراجات پر بات نہيں ہوتی ، حقائق پر مبنی بات نہ ہوئی تو ايک سال بعد نمبرز دیکھ کر سب حيران ہوجائيں گے ، سابق صدر کے سی سی آئی انجم نثار نے کہا کہ بہت مشکل ہے کہ ہم نو ہزار دو سو ارب کا ٹيکس ہدف حاصل کرسکيں ، اگر حاصل بهی کرليں تو وه قرضوں کی ادائيگی ميں چلا جائے گا ، معاشی تجزيہ کار محمد سہيل نے کہا بدقسمتی سے يہ ايک نارمل بجٹ پيش ہونے جارہا ہے ، سب سے بڑا مسئلہ 22 بلين ڈالر کی ادائيگی کا ہے ، 22 بلين ڈالر کی پيمنٹ کيسے ہوگی؟ اگر اس کی پيمنٹ نہ ہوئی تو کرنسی مزيد گر جائے گی ، ماہر ٹيکس امور ذيشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ جتنے ٹيکس يہ لگا سکتے تھے لگا چکے ، اب مزيد کی گنجائش نہيں۔سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ بجٹ کو آئی ایم ایف کی توقعات کے مطابق کہہ سکتے ہیں،ہم بہت بری جگہ پر پھنس گئے ہیں جہاں پر ہمیں صرف سود دینے کیلئے قرضہ لینا پڑرہا ہے ابھی تو ہم اپنے اخراجات کا ایک روپیہ بھی meet نہیں کرسکے،خصوصی ٹرانسمیشن میں ماہرین معاشیات اشفاق تولہ ، گوہر اعجاز اور مزمل اسلم نے بھی اظہار خیال کیا۔ماہر معاشیات محمد سہیل نے کہا کہ بجٹ میری توقعات کے برعکس نہیں ہے مگر میری خواہشات کے برعکس ہے، کیونکہ یہ نارمل بجٹ پیش کردیا گیا، ساڑھے چھ فیصد فسکل خسارے کا ٹارگٹ اس ٹائم پر جب بحران ہے، آئیڈیل طور پر یہ ہوتا کہ خرچے کم کیے جاتے یا کم از کم contain کیے جاتے، یہاں 35 فیصد تنخواہیں بڑھادی گئی ہیں سولہ گریڈ کے افراد کی اور تیس فیصد تک باقیوں کی جس میں rich لوگ شامل ہوں گے ان کی بھی تنخواہ تیس فیصد بڑھی ہے، دوسری جانب ٹیکس ریونیو کا ٹارگٹ 9ہزار 200 زیادہ ہوتا ہے، میرے خیال میں فسکل خسارہ پانچ فیصد سے کم ہوتا، اب یہ دیکھنا ہے کہ آئی ایم ایف کا جو ٹارگٹ ہے primary deficit کا اس کے قریب ہے، حکومت نے 0.4 رکھا ہے،مگر فسکل خسارہ مجھے لگتا ہے پرابلم پیدا کرے گا، آنے الے دنوں میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے اس کا کیا رسپانس آتا ہے، میں نے ڈیبیٹ میں آئیڈیل سچویشن کی بات کی تھی مگر وہ آئیڈیل سچویشن پاکستان میں آج نہیں ہوتی اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے جاکر لینڈنگ ایجنسیز اس پر خوش ہوجاتی ہیں جو پرائم منسٹر صاحب بھی پرامید ہیں لیکن اگر وہ خوش نہیں ہوتیں تو اسے آنے والے وقت میں revise کرنا پڑے گا۔ماہر معاشیات خاقان نجیب نےکہا کہ جس دن بجٹ شروع کریں گے اگر مارک اپ کی ساری پیمنٹ کردیں تو میرا خیال ہے 500ارب روپے وفاق کو borrow کرنا پڑے گا، اگر میں یہ سارے نمبر مان بھی لوں تو 416ارب روپے borrow کریں گے اور صرف مارک اپ پے کریں گے، میری تو پہلی امید یہ ہے کہ آپ کو debt reprofiling کا ایک طریقہ کار پیش کرنا چاہئے تھا، آپ کو اس کے ساتھ ساتھ جو پچیس ارب ڈالرز اگلے سال collectہونا ہیں چلیں اس میں سے میں 9ارب ڈالرز چھوڑ دیتا ہوں تو 16ارب ڈالرز کا منظر نامہ پیش کرنا چاہئے تھا آپ ذرا غور سے دیکھیں جو آپ کا نان ٹیکس ریونیو ہے جو 83فیصد آپ بڑھارہے ہیں 1600 سے اس کو 2963پر لے جارہے ہیں، پی ڈی ایل بھی بڑھ رہا ہوگا جو میرا نہیں خیال ممکن ہوگا، نان ٹیکس میں آپ نے بہت بڑا جمپ اسٹیٹ بینک کے پرافٹس کوبھی دیا ہوگا، یہ 2963 is a higher number ۔ اس کی جگہ آپ کو یہ جو 9200ارب روپے کا نمبر تھا اس میں جو ہم progressivity of taxation ہمیشہ کہتے رہے ہیں اس کو بڑھانا چاہئے تھا، اگر آپ بجٹ کا خسارہ شروع سے ہی ساڑھے چھ فیصد پر کریں گے، پچھلے بجٹ کا خسارہ پانچ فیصد پر شروع کیا تو سات فیصد پر ختم کیا، یہ ابھی بھی expentionary budget ہے، انکم سپورٹ صرف 470ارب روپے گیا ہے میری امید اس سے بہت زیادہ ہے، آپ نے بہت بڑھادیا ایک سے بائیس کو 30فیصد آپ نے بڑھائی تنخواہیں وہ بھی I think at this stage اور آپ یاد رکھیں ان کوہم ایک ایگزیکٹو الاؤنس بھی دے چکے ہیں، I think thought کا جو عنصر ہے ، پنشن میں بھی اگر آپ دیکھیں۔ماہر معاشیات اشفاق تولہ نے کہا کہ جو کچھ ٹیکسیشن پروپوزل وغیرہ تھے اور جس پروپوزلز کو ہمیں لے کر چلنا تھا آپ نے دیکھا ہوگا انہوں نے وہاں ٹیکسز لگائے جہاں پر ونڈ فال گینز کی باتیں ہورہی ہیں، نارملی کہیں پر کوئی ایسا taxation measure نہیں لیا اور اسی لیے آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ میزانیہ آپ کا 7ہزار 400بلین پر فسکل خسارہ آئے گا، میں نہیں سمجھتا اس میں کوئی بہت بری بات ہے، مہنگائی کو دیکھتے ہوئے آپ دیکھیں usually پرائیویٹ سیکٹر میں بھی یہ چیزیں بڑھی ہیں، جیسے آپ سمجھتے ہیں کہ الیکشن سال کی بات نہیں ہوتی ہے نارملی بھی پندرہ سے بیس فیصد تنخواہیں بڑھتی ہیں، مگر اس مرتبہ آپ دیکھیں تو آپ کی مہنگائی 38فیصد پر ٹچ کرگئی تھی اور نیچرلی 19کی ایوریج رہے گی، اس کے بعد اگلے سال آپ نے خود بتایا کہ اکیس فیصد کی انفلیشن ہونی ہے تو اس لیے یہ وقت کی ضرورت تھی،یہ بیسک سیلری پر اضافہ ہوتا ہے ٹوٹل سیلر ی پر اضافہ نہیں ہوتا ہے، میں نہیں سمجھتا یہ مجموعی طور پر 35فیصد ہے یہ 17.5فیصد اضافہ ہوگا۔دو تین چیزیں اچھی ہوئی ہیں مجھے خوشی ہے کہ میں اس کا حصہ رہا ہوں، آپ دیکھیں گے کہ کچھ فکس ٹیکس رجیم تھی ہمارے انکم ٹیکس آرڈیننس کے اندر 236 کے اندر ۔ ان کا دائرہ وسیع نہیں کیا گیا مگر اس کے lieu میں ایک فیصد کا ٹیکس ان پر لاگو ہوجائے گا، اس طریقے سے ان کی جو ڈیمانڈ تھی کہ رقبے کے حساب سے ٹیئر ون کا جو رقبہ ہوتا تھا اور اس کی وجہ سے انہیں کافی ہراسمنٹ محسوس ہوتی تھی وہ ہم نے نکال دی ہے، اب یہ سارے کے سارے تاجر اپنی ایک simplified return جمع کروائیں گے جو ڈاکومنٹیشن کیلئے آپ کو بہت بہترین مواقع فراہم کرے گا، آپ نے دیکھا ہوگا ایک جو اسٹڈی آئی ہوئی تھی جس میں پی بی سی نے کیا تھا اور سی پی بی آر نے کیا تھا ۔ تاجروں کے جو بل آرہے ہیں، ہم نے انہیں کہا کہ آپ ریٹرن فائل کریں، پہلے ڈاکیومنٹیشن کے زمرے میں تو آئیں ہمیں پتا تو چلے۔ ان سب باتوں پر مذاکرات ہوئے ہیں اور میں خود ان مذاکرات کو ایف بی آر کی طرف سے لیڈ کررہا تھا، میں آپ کو بتاتا ہوں all are very happy ان کی جو جینوئن ڈیمانڈ تھی وہ ہم نے پوری کی اور میرا خیال ہے اب وہ نیٹ کے اندر آئیں گے، ایسا کچھ نہیں ہے کہ ہم نے انہیں کچھ معاف کیا ہے، ویسے بھی ان کا جو 236میں ٹیکس کٹتا تھا میرا خیال ہے عمران خان کے دور میں شروع ہوا تھا، اس سے پہلے بھی ہم کرتے تھے مگر اس کو reduction انہوں نے کردی تھی،بالکل اسی پیٹرن پر چھوٹے تاجروں پر ہم across the board ایک چھوٹا تا ٹیکس لگا کر ان سے وہ ٹیکس لیں گے اور وہ باقاعدہ ریٹرن فائل کریں گے، ہمیں پتا تو چلے کہ ان کا ٹرن اوور کیا ہے۔ ماہرمعاشیات گوہر اعجاز نے کہا کہ بڑا مشکل پچھلا سال گزرا ہے، لارجر اسکیل مینوفیکچرنگ contract کی ہے، ایکسپورٹس خصوصاً ٹیکسٹائلز، جو میں سمجھ رہا تھا کہ 19.4بلین پچھلے سال ٹچ کی تھی میرا ٹارگٹ تھا ہم 25بلین ڈالرز کی طرف جائیں گے لیکن ہماری را میٹریل کی قلت آگئی، کاٹن کی crop failure ہوگئی، سیلاب آگئے، ہم 16بلین ڈالرز بند کریں گے، میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہم 19.3بلین سے واپس 16بلین کی طرف جائیں گے، اب جیسے ہم بات کررہے ہیں ہم sustainenace کی طرف آرہے ہیں، میں نے دیکھا ڈار صاحب نے بڑی پازیٹو بات کی کہ ہم خام مال کی ایل سیز کو پہلی ترجیح دیں گے، انہوں نے یہ بات کی کہ ہم ایکسپورٹس کو پہلی ترجیح دیں گی، انہوں نے بات کی کہ ہم ایکسپورٹس کا اگلے سال کا ہدف 33بلین ڈالرز رکھیں گے، میرا ٹارگٹ 33بلین ڈالر ز ہی ہوگا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں ہمیں ملک کو چلانا ہے، چار بلین ڈالرز تو اس وقت ہمارے ہاتھ میں پڑا ہوا ہے، میں ریجنل انرجی ٹیرف کا انتظار کررہا ہوں کہ اس میں واضح نہیں ہوا کہ ریجنل انرجی ٹیرف 9سینٹ یا 9ڈالر جو کہ آئی ایم ایف کی کنڈیشن تھی کہ آپ نے بجٹ میں اس کیلئے amount allocate نہیں کیا، وہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا مختلف پروگرامز میں کہ یہ کراس سبسڈی ہے، انڈسٹری کراس سبسڈی دیتی ہے دوسرے سیکٹرز کو جو اپنے پیسے ادا نہیں کرتے، اب اگر ایکسپورٹ انڈسٹری کا یا بی تھری بی فور کا جو لارج اسکیل مینوفیکچرنگ ہے اس کا ڈائریکٹ ٹیرف نکالا جائے تو اس کی کاسٹ ہی 9سینٹ سے نیچے ہے، جب وہ 9 سینٹ سے نیچے ہے تو میں بار بار کہتا ہوں کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کراس سبسڈی نہیں دے سکتی نہ آپ اس پر بوجھ لاد سکتے ہیں، مجھے انتظار ہے کہ بجٹ کی تفصیلات آئیں کہ اس کو کس طریقے سے ڈیل کیا گیا ہے، ریجنل انرجی ٹیرف یہ basic component ہے ایکسپورٹ کے اندر regionally viable رہنے کیلئے۔ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر میں دیکھ رہا ہوں ریڈ فنڈ کو انہوں نے ایک سال کی ایکسٹینشن دی ہے جو بہت مثبت بات ہے۔ محمد سہیل نے کہا کہ اس دفعہ پاکستان کا markup expesne تین سال پہلے کے total expense سے زیادہ ہوگیا ہے، میری خواہش تھی کہ جو لوگ مارک اپ کمارہے ہیں جب پورا ملک پریشانی میں ہے بحران میں ہے وہ لوگ جو بینکوں میں پیسہ رکھ کر کمارہے ہیں اس پر ٹیکس بڑھادیا جاتا ، میری تجویز تھی کہ اگر دس فیصد ٹیکس بڑھادیا جاتا تو یہ 700ارب روپے بڑھ جاتا اور ہم 10ہزار ارب روپے پر پہنچ سکتے تھے، پتا نہیں ایسا کیوں نہیں کیا، دوسرا میری خواہش تھی اکنامک تھیوری بھی یہی کہتی ہے کہ ایک بندہ ایک لاکھ روپے کماتا ہے اور ایک بندہ پچاس لاکھ روپے کماتا ہے تو ہمارے ٹیکس ریٹ پروگریسیو ہے مگر وہ 35فیصد کے بعد رک جاتا ہے، جس طرح کمپنیز نے کیا ہے کہ انہوں نے 50کروڑ سے اوپر کی کمپنیوں کو تقریباً 39فیصد لے گئے ہیں، میرے خیال میں نیچے لیول پر بھی اور دوسرے لیولز پر بھی یہ کردیا جاتا تو 10ہزار ارب تک ہوجاتا جس کی وجہ سے فسکل خسارہ جو ہر سال ریکارڈ ہائی بنتا ہے اس میں کمی لائی جاسکتی تھی، شاید وہ چیز آئی ایم ایف کو attract کرتی، اب دیکھنا ہے جب بجٹ کے خدوخال آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے ۔ خاقان نجیب نے کہا کہ ڈیبٹ کی ری پروفائلنگ کیلئے پاکستان رائپ ہے، میں ری پروفائلنگ بار بار اس لیے استعمال کررہا ہوں کہ میں بھی کوئی باہر والوں کو ہیئرکٹ کا عندیہ نہیں دیناچاہتا، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ ری پروفائل کردیں، ہماری maturities بڑھ جائیں ، ڈومیسٹک کو ہینڈل کرنے کیلئے جو سہیل کہہ رہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے، آپ کو دوسری سائڈ پر دکھانا چاہئے تھا کہ اگر اتنا بڑا انٹرسٹ پیمنٹ ڈومیسٹک جارہا ہے تو اس پر سے آپ کیسے پیسے لے سکتے ہیں،اشفاق تولہ نے کہا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اسٹیٹ بینک کے پرافٹ میں 1.117 ٹریلین ہم نے رکھا ہوا ہے کہ جو ان کا پرافٹ اس مرتبہ کافی اپ سائز ہوا ہے، اوا یم او کے ذریعہ انہوں نے کافی بینکوں کو سب لینڈنگ کی ہے اس کی وجہ سے ان کی انکم میں کافی اضافہ ہوا ہے، آپ نے پٹرولیم لیوی میں اضافہ کیا 870 بلین کا آپ لے کر گئے ہیں۔ سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف سے شروع کرتے ہیں تو آئی ایم ایف نے آپ سے مانگا تھا کہ 0.5فیصد آپ کا پرائمری سرپلس ہونا چاہئے، آپ نے 0.4فیصد دیا ہے تو تقریباً وہی دیدیا ہے جو آئی ایم ایف مانگ رہا ہے، اس بجٹ کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کی توقعات کے مطابق ہے۔ اگر آئی ایم ایف کو آپ کے ریونیو کے اور اخراجات کے تخمینے صحیح لگ رہے ہیں تو پھر یہ تقریباً in line with IMF بجٹ ہے اور کوئی بہت expensionary بجٹ نہیں ہے، جو نمبر آئی ایم ایف concentrate کرتا ہے primary deficit یا پرائمری سرپلس آپ وہیں تقریباً کھڑے ہیں جہاں آئی ایم ایف چاہتا ہے، سوا سو ارب روپے کا فرق ہے شاید، وہ چاہ رہا ہوں کہ 525ارب روپے ہوتے اور آپ نے 370ارب روپے دکھایا ہے پازیٹو۔اس سال کا ایک بڑا خرچہ جو آیا تھا وہ سیلاب کی وجہ سے آیا تھا، جس میں آپ نے کچھ سو ارب سے زیادہ غریب لوگوں کو ڈائریکٹ سبسڈی دی تھی، اور آپ نے چیزیں بنوائی ہیں اس کی وجہ سے آپ کو بجٹ میں بھی فرق نظر آیا ہے، آپ نے BIPSکے پروگرام کو بڑھایا تو یہ فرق آیا تھا، دوسرا جو بڑا فرق آیا ہے وہ انٹرسٹ ریٹ کی وجہ سے آیا ہے، انٹرسٹ ریٹ اتنے بڑھ گئے تھے جس کی توقع نہیں تھی، اور اب کیونکہ اکیس فیصد پر ہے اور حکومت تقریباً سارے کا سارا فلوٹنگ ریٹ پر قرضہ لے رہی ہوتی ہے تو حکومت کے انٹرسٹ کے اخراجات بہت بڑھ گئے تھے جس کی وجہ سے فرق آیا ہے، اگلے سال آپ نے آلریڈی اگر سات ہزار ارب روپے کا تخمینہ رکھا ہے سود کا تو میرے خیال سے یہ deficit کا ٹارگٹ جو ہے اور آپ نے صرف 8.9فیصد جی ڈی پی ٹیکس رکھا ہے تو میرے خیال سے یہ ٹارگٹ ہوسکتے ہیں۔ اس بجٹ میں جو سب سے تشویشناک بات ہے اور حکومت پاکستان کی جو معاشی حالت ہے آپ دیکھیں کہ ہماری revenue reciepts چھ ہزار آٹھ سو ارب روپے ہیں، یعنی اگر وفاق 9ہزار 200ارب روپے جمع کرتا ہے، صوبوں کو ان کا حصہ دیتا ہے، اس کے بعد کوئی 2500ارب روپے یا اس سے زیادہ نان ٹیکس انکم ہے وہ سب ملالیں وفاق کی حکومت کے پاس 6900ارب روپے ہیں اور حکومت کو 7ہزار 500ارب روپے کا سود دینا ہے، اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ سود دینے کیلئے قرض لے رہے ہیں، ابھی آپ نے خرچہ ایک روپے کا بھی نہیں کیا صرف سود دینے کیلئے آپ قرضہ لے رہے ہیں، اس کو ڈیبٹ ٹریپ بولتے ہیں،ہم بہت بری جگہ پر پھنس گئے ہیں جہاں پر ہمیں صرف سود دینے کیلئے قرضہ لینا پڑرہا ہے ابھی تو ہم اپنے اخراجات کا ایک روپیہ بھی meet نہیں کرسکے، اسی لیے بہت ری اسٹرکچرنگ بجٹ کی ضرورت ہے ورنہ اس طریقے سے یہ کام نہیں چل سکتا، اللہ کرے کہ تھوڑی سی شرح سود بھی کم ہو اگلے مالی سال میں تو تھوڑی سی حکومت کو ریلیف ملے گی لیکن یہ بجٹ جو ہے جس طرح حکومت ٹیکس بڑھارہی ہے اور صوبوں کو پیسے دے رہی ہے اور جس طرح اخراجات ہورے ہیں یہ بجٹ بہت زیادہ مشکل ہوگیا ہے، یہ بہت لمبا sustainable نہیں ہے۔ سول گورنمنٹ کے اخراجات میں آدھے سے زیادہ اخراجات صرف تنخواہوں کے ہوتے ہیں، کسی کسی ڈویژنز میں سیلری کے اخراجات ساٹھ فیصد ہوتے ہیں، اگر کسی آدمی کو آپ پچھلے سال ایک لاکھ روپے سیلری دے رے تھے اس سال اگر تیس فیصد انفلیشن ہے تو اس کا ریئل پرچیزنگ پاور تو 70ہزار روپے ہوگئی اس لیے آپ اس کی تنخواہ پچیس یا تیس فیصد بڑھائیں گے، پنشن بھی تنخواہ سے جڑی ہوتی ہے، پنشنز میں ریفارم کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ پنشنز کے اندر بہت سے degrees of relative ملتے ہیں کہ اگر ایک صاحب کی فوتگی ہوجاتی ہے تو ان کی بیوہ کو ملتے ہیں، ان کی فوتگی ہوجاتی ہے تو ان کی بڑی بیٹی اگر غیرشادی شدہ ہے تو ان کو ملتے ہیں، ان کے والدین کو ملتے ہیں، یہ پنشن سے چھٹکارا نہیں ہے، پنشنز میں بھی آپ کو ریفارم کرنا پڑے گا اورآپ اس کے اندر فنڈڈ پنشن کی بھی بات کریں، حکومت اس کے اندر ہر سال کچھ پیسے بھی ڈالے اور اسی طرح حکومت کو بھی مائیکرواسکوپک دیکھنا ہے کہ کتنے لوگوں کی آپ کو ضرورت ہے کتنے لوگ آپ نے رکھنے ہیں، آپ نے وفاقی حکومت میں کیا کیا چیزیں کرنی ہیں، میں سچ بتارہا ہوں وفاقی حکومت میں بہت زیادہ fat نہیں ہوتا ہے اگر آپ تنخواہ بڑھادیں تو بہت زیادہ پیسے بچتے نہیں ہیں، پھر آپ کی جو فارن ملک میں سفارتخانے ہوتے ہیں ان کے اخراجات ڈالر میں ہوتے ہیں ڈالر بھی بہت ڈی ویلیو ہوگیا، یہ خرچے اس لیے کرنا پڑتے ہیں، مسئلہ وفاقی خرچے سے بہت زیادہ ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت آپ ساڑھے سات ہزار ارب روپے کا خسارہ پراجیکٹ کررہے ہیں، وفاقی حکومت کو اگر آپ ختم بھی کردیں تو پھر بھی آپ کا 6ہزار 800ارب روپے کا خسارہ ہوگا۔اس سوال پر کہ آپ بتاسکتے ہیں وفاق کے پاس اس وقت کتنے سرکاری ملازمین ہوں گے؟ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ مجھے اندازہ نہیں ہے۔ اس میں ٹیچرز بھی شامل ہوتے ہیں، پروفیسرز بھی شامل ہوتے ہیں۔حکومت کے لاکھوں ملازمین ہیں وہ حکومت کیلئے نوکری کرتے ہیں ، وہ صبح آتے ہیں اور شام کو جاتے ہیں ان کو معاوضہ ایمانداری سے دینا چاہئے۔ میں سچ آپ کو بتارہا ہوں کہ حکومت کے پاس یہ حق ہونا چاہئے کہ جو آدمی صحیح کام نہ کرے اس کو نکال دے اور یہ جو ہمارے کورٹ سے اسٹے آرڈر آجاتے ہیں وہ نہیں ہونا چاہئیں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ معاوضہ تو پھر بھی ایمانداری سے دینا چاہئے۔ یہ جو آپ کی دوسری بات درست ہے کہ BIPS کے اندر بہت زیادہ پیسے بڑھانے کی ضرورت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ صوبوں کو بھی اس میں لانا چاہئے اور اس کو ڈبل کردینا چاہئےBIPS کے اندر تاکہ جس کو آپ پیسے دیں وہ غربت سے نکلے، اس کو کچھ ہنر ملے، اس خاتون کے بچوں کو ہنر ملے اور پھر وہ اپنے پیروں پر کھڑے رہ سکیں۔ اس ملک میں ہم لوگوں نے غریب لوگوں کو بہت زیادہ غریب رکھا ہے، ان کو جہالت کے عالم میں رکھا ہے، انہیں صحت کی سہولیات مہیا نہیں ہیں، یہ غریب لوگوں کے اوپر کام کرنا ضروری ہے، اگر آپ نے کہیں پیسے کم کرنے ہیں تو آپ کے اے ڈی پی کے جو پلانز ہوتے ہیں صوبوں کے جو annual development پلانزہوتے ہیں یا پی ایس ڈی پی کے پلانز ہوتے ہیں جس میں چھوٹے چھوٹے خرچے ہورہے ہوتے ہیں، کہیں سڑکیں بن رہی ہوتی ہیں جن کو ایم این ایز کے پراجیکٹس بولتے ہیں آپ وہاں پر تھوڑی بہت کٹوتی کرسکتے ہیں۔ بہت سارے اکنامسٹ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ری شیڈولنگ یا ری اسٹرکچرنگ کرنی چاہئے اپنے لونز کی۔ میں اس کے حق میں بالکل نہیں ہوں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ری اسٹرکچرنگ کا مطلب ہے کہ آپ رضاکارانہ طور پر ڈیفالٹ میں جارہے ہیں، یہ نہیں کرنا چاہئے، جو ملک گئے ہیں سری لنکا یا گھانا اس کی طرف انہیں بہت تکلیف ہوئی ہے، ہم نے 25بلین ڈالرز تقریباً ایکسٹرنل ڈیبٹ سروسنگ کی بات کی ہے اس میں سے 22بلین ڈالرز ہم پاکستان میں دے رہے ہیں، تین بلین سے بھی کم کی فارن ڈیبٹ سروسنگ دے رہے ہیں، فارن ڈیبٹ سروسنگ اتنی بھاری نہیں ہے لوکل ڈیبٹ سروسنگ بہت زیادہ بھاری ہے، اگر آپ لوکل ڈیبٹ سروسنگ کے اندر ری شیڈولنگ کریں گے تو بہت سارے آپ کے بینکس ہیں جن کی بہت زیادہ پونجی اس پر لگی ہوئی ہوتی ہے وہ بینکس کی کیپٹل ریکوائرمنٹ خراب ہوجائیں گی، میرے خیال سے یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے اس کو اتنی آسانی سے نہیں کہہ دیناچاہئے کہ ہم کو ری اسٹرکچرنگ کرنی چاہئے، میں سمجھتا ہوں کہ ہم کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہئیں کہ پاکستان اپنے وعدے پورے کرے اور ری اسٹرکچرنگ میں نہ جائے۔ ریویو مکمل کرنے میں جو steps رہ گئے ہیں وہ یہ ہے کہ پہلے اسٹاف لیول ایگریمنٹ ہونا چاہئے، یہ دیکھ کر اسٹاف لیول ایگریمنٹ ہوجائے، اس اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے بعد وہ ایک مینجمنٹ نوٹ تیار کرتے ہیں دو چار دن ان کو لگتے ہیں، مینجمنٹ سے اپروول لیتے ہیں پھر اس کے بعد نوٹ بورڈ میں تقسیم کرتے ہیں، تین ہفتے کم از کم بورڈ کو دیتے ہیں اور پھر بورڈ میٹنگ ہوتی ہے، اتنا وقت تو نہیں ہے لیکن شاید وقت کم کریں کہ دو دن میں نوٹ لکھ لیں، شاید نوٹ ان کے پاس تیار ہو وہ مینجمنٹ ایک دن میں اپروو کرے اور ایک ہفتے میں بورڈ میٹنگ بلائیں، پرائم منسٹر کہہ رہے ہیں تو صحیح کہہ رہے ہیں انشاء اللہ اور یہ ہوجائے گا، اس کی امید کرسکتی ہے لیکن یہ اس وقت تھوڑا سا مشکل نظر آرہا ہے،بالخصوص جو مشکل بات ہے وہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے چھ بلین ڈالرز جو ہم کو کہے تھے کہ ایکسٹرنل فنڈنگ کے جمع کرو اس میں سے ہم صرف ابھی تک چار جمع کرسکے ہیں اور دو جمع نہیں کرسکے، میرے خیال سے مغربی ممالک کی expectations ہیں کہ یہ دوبلین ڈالرز چین دے یا قطر دے یا کوئی مڈل ایسٹ کا ملک دے، مغربی ممالک اس میں اپنا کوئی حصہ نہیں ڈال رہے، نہ وہ آئی ایم ایف کو پش کررہے ہیں، وہ بضد ہیں کہ چائنا اور پیسے ڈالے، چائنا on the other hand سوچ رہا ہوگا کہ ہم تو سارے پیسے ری رول بھی کررہے ہیں، ہمارے بینکوں نے پاکستان سے پیسے withdrawn نہیں کرے جبکہ مڈل ایسٹ کے بینکوں نے withdrawکرلیے، مغربی ممالک نے withdrawnکرلیے تو ہم سے کیوں مزید پیسے دینے کیلئے کہا جارہا ہے، امریکا اور چین کی آپس کی سیاست بھی ہمارے آڑے آرہی ہے۔ وہ تو اسٹاف لیول ایگریمنٹ بھی چار بلین ڈالرز پر سائن نہیں کررہے نہ کہ بورڈ میٹنگ کروائیں، وہ تو اصرار کررہے ہیں کہ چھ بلین ڈالرز لے کر آئیں،اگر وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ یہ امید ہے اور آج بجٹ دیا ہے جیسا میں نے آپ سے گزارش کی کہ بجٹ میں 0.4فیصد یا ساڑھے تین فیصد کا ہم پازیٹو سرپلس دکھارہے ہیں وہ 0.5کا مانگ رہے ہیں، ایک ڈیڑھ سو ارب روپے کا فرق رہ گیا ہے وہ بھی پورا کرسکتے ہیں کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے اگر تنخواہوں کا کوئی اور مسئلہ نہ نکل آئے۔ میرے خیال سے اگر وزیراعظم کہہ رہے ہیں تو اللہ کرے، میں خود آپ سے گزارش کررہا ہوں کہ یہ مشکل لگ رہا ہے لیکن امید کرسکتے ہیں۔ ماہر معیشت مزمل اسلم نے کہا کہ اگر وہ کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی پرفارمنس کی وجہ سے ملک کے یہ حالات ہیں کہ آپ انہیں درخواست کریں کہ جس جگہ پر تحریک انصاف نے آپ کو دیا تھا وہاں پر ملک دیدیں۔ ابھی آپ نے سود کی بات کی، تحریک انصاف نے آخری سال بجٹ میں 3ہزار 900ارب روپے سود میں ادائیگی کی تھی، اس سال 7ہزار 303ارب روپے ہے، 11.75 فیصد شرح سود تھی اور 12فیصد مہنگائی تھی، اب ان کے دور میں مہنگائی 38فیصد پر چلی گئی ہماری وجہ سے نہیں گئی، شرح سود اکیس فیصد جو پاکستان کی تاریخ کی سب سے بلند ترین ہے وہ انہی کی حکومت میں ہوا تو تحریک انصاف کا کہاں سے قصور ہوگیا، پہلی دفعہ وفاقی بجٹ کا پچاس فیصد سے زیادہ سود کی ادائیگی میں جائے گا، آپ کا جو نیٹ ریونیو ہے اس کا 110 فیصد صرف سود کی ادائیگی میں جائے گا، اگر آپ کا گراس ریونیو دیکھاجائے جو 9ہزار 200روپے ہے اس کا 75فیصد ٹیکس آپ کی سود کی ادائیگی میں دیں گے، اس میں تحریک انصاف کا کیا قصور آگیا۔