’’ہنگامہ آرائی نہ شور شرابہ، نہ ہی نعرے بازی اور نہ ہی سپیکر ڈائس کا گھیرائو ‘‘

10 جون ، 2023

اسلام آباد (فاروق اقدس/ تجزیاتی رپورٹ) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جنہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں انتہائی قابل ماہر معاشیات اور بجٹ پیش کرنے میں غیرمعمولی تجربے اور مہارت کا حامل سمجھا جاتا ہے انہوں نے 2023-24 کا بجٹ بلاتکان اور پورے اعتماد کے ساتھ پیش کیا،بجٹ کو ایوان میں ہونے والی کارروائی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ انتہائی پرسکون انداز میں پیش کئے جانے والا بجٹ تھا ’’ہنگامہ آرائی نہ شور شرابہ، نہ ہی نعرے بازی اور نہ ہی سپیکر ڈائس کا گھیرائو ہوا ایوان میں پی ٹی آئی کے ’’منحرفین اور اپوزیشن لیڈر‘‘ لاتعلقی کے ساتھ بیٹھے رہے ایوان اتنا پرسکون تھا کہ نوید قمر بار بار اپنی نشست پر اونگھ رہے تھے اور ایک مرحلے پر انہیں سوتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ بڑی تعداد میں ارکان جن میں بعض وزراء بھی شامل تھے اپنے موبائل فونز پر مصروف تھے جبکہ کچھ بجٹ کی دستاویزات کے مطالعے میں۔ بہرحال یہ سارا منظر موجودہ حکومت اور قومی اسمبلی کے سپیکر کی خوش قسمتی کا باعث بنا کہ انہوں نے اپنے دونوں ادوار حکومت میں بغیر کسی ہنگامے، گالم گلوچ اور سالہا سال سے جاری اس موقعہ پر پیش آنے والے افسوسناک واقعات کا سامنا کئے بغیر بجٹ پیش کیا وگرنہ اب تک کی روایت تو یہ رہی ہے کہ وفاقی بجٹ پیش کئے جانے کے موقعہ پر بہرحال قومی اسمبلی کے ایوان میں اپوزیشن کی جانب سے جو ہنگامہ آرائی ہوتی ہے بجٹ کے دستاویز اچھالی جاتی ہیں۔ وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران خلل ڈالنے کیلئے نعرہ بازی اور انہیں ’’ہراساں‘‘ کرنے کیلئے طرح طرح کے ریمارکس دیئے جاتے ہیں۔ سپیکر ڈائس کے سامنے بھی ہلہ گلہ کیا جاتا ہے اور حکومت مخالفین اس تمام ہنگامہ آرائی ہلڑ بازی کو ’’جمہوریت کا حسن‘‘ قرار دیتے ہیں لیکن اسی وقت تک جب اپوزیشن میں ہوں، ایوان میں ہونے والی ہنگامہ آرائی جو اب افسوسناک حد تک ناپسندیدہ روایت بن چکی ہے لیکن وہ جمہوریت کا حسن ہے۔ اور جمہوریت کے اس حسن سے ’’محظوظ‘‘ ہوتے ہوئے لوگوں کو کم وبیش نصف صدی کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت میں پیش کئے جانے والا وفاقی بجٹ 2022-23 جو اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پیش کیا تھا اور یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا پہلا موقعہ تھا جب ایوان میں موجود تمام اراکین خاموشی سے وزیر خزانہ کی تقریر پورے انہماک سے سن رہے تھے اور خود وزیر خزانہ انتہائی پرسکون انداز میں بجٹ تقریر کر رہے تھے ان میں اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن کے اراکین بھی شامل تھے۔ اگر تقریر کے دوران وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل وقفوں وقفوں سے پانی پیتے رہے اور کئی مواقعوں پر لفظوں اور اعداد وشمار کے مرحلے میں ان کی آواز لڑکھڑائی تو اس میں بھی اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں تھا۔ موجودہ حکومت کے دوسرے بجٹ میں بھی گوکہ پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اراکین اور ’’اپوزیشن لیڈر‘‘ راجہ ریاض ایوان میں موجود تھے لیکن ان کی موجودگی میں بھی ایوان اپوزیشن کے بنچوں سے احتجاج اور ستائشی ڈیسک کی آوازوں سے محروم تھا۔ پریس گیلری میں موجود بجٹ پیش کئے جانے کے موقعہ پر وزیر خزانہ کی تقریر اور عام بجٹ کوریج کرنے والے میڈیا کے نمائندے شاہد ہیں کہ 1997 میں جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم میاں نواز شریف اپنی بھرپور مقبولیت کے ساتھ ایوان میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ آئے تھے اور محترمہ بینظیر بھٹو صرف 17 ارکان کے ساتھ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت میں ایوان میں تھیں تو بجٹ پیش کئے جانے کے موقعہ پر انہوں نے اپنے 17 ارکان کے ہمراہ ایوان میں زبردست احتجاج کیا اور وزیر خزانہ کی تقریر میں خلل کے باعث انہیں تین مرتبہ اپنی تقریر روکنی پڑی تھی۔