امیر اور غریب طبقے کی لمبی قطاریں، لمحہ فکریہ

اشتیاق بیگ
14 جون ، 2023
کسی بھی ملک کی مڈل کلاس یعنی درمیانی طبقے کو معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ درمیانی طبقے کے لوگوں کی قوت خرید کی وجہ سے پیسہ گردش میں رہتا ہے اور معاشی گروتھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ درمیانی طبقے (مڈل کلاس) کے حجم میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں خط غربت سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی اور مڈل کلاس طبقے میں اضافہ ہورہا ہے لیکن دوسری طرف اگر مڈل کلاس طبقے کے لوگ خط غربت سے نیچے جارہے ہوں تو یہ ظاہرہوتا ہے کہ ملک میں مڈل کلاس طبقہ سکڑ رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں مڈل کلاس طبقہ مسلسل زوال پذیر ہے اور اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو ماہرین اقتصادیات کے مطابق پاکستان میں آئندہ کچھ عرصے میں مڈل کلاس طبقے کے لگ بھگ مزید دو کروڑ افراد خط غربت سے نیچے چلے جائینگے۔ اسکے برعکس چین اور بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں مڈل کلاس طبقہ دنیا میں سب سے زیادہ تصور کیا جاتا ہے،جس کا ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ہے۔ میرا کئی بار چین جانا ہوا اور میں خود اس بات کا مشاہدہ کرچکا ہوں کہ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں کروڑوں افراد سطح غربت سے مڈل کلاس طبقے میں داخل ہوئے ہیں جبکہ بھارت میں بھی یہی صورتحال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں جی ڈی پی گروتھ سب سے زیادہ ہے اور یہ دونوں ممالک تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد (sdpi) کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں مڈل کلاس طبقے کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہےاور اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق پاکستان میں 2018ءکے بعد روپے کی قدر نے ڈالر کے مقابلے میںگرنا شروع کیا تو جو شخص پہلے یومیہ ایک ڈالر (105 روپے) کما رہا تھا، ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے وہ بے شک 105 روپے ہی کما رہا ہے لیکن وہ ایک ڈالر سے بہت کم ہے، اس لئے وہ ورلڈ بینک کی مڈل کلاس کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ ساتھ ہی پاکستان میں مہنگائی اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی مڈل کلاس کے سکڑنے کی ایک وجہ ہے۔ ماہرین اقتصادیات اس کی وجوہات بتاتے ہیں کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب نے ملکی معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے، ساتھ ہی زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی، صنعت و برآمدات کا پہیہ رک جانے جیسے عوامل بھی شامل ہیں جس سے پاکستان میں شرح نمو اور اقتصادی ترقی کی شرح میں نہایت کمی ہوئی اور اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق پاکستان میں شرح نمو مزید نیچے جانے کا اندیشہ ہے جس سے مڈل کلاس طبقہ مزیدسکڑے گا اور یہ رجحان جاری رہا تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پاکستان میں مڈل کلاس طبقہ ختم ہوکر رہ جائے گا۔
مڈل کلاس کے سکڑنے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو ملنے والا حج کوٹہ بھی پورا استعمال نہ کیا جاسکا اور سعودی حکومت کو واپس کرنا پڑا۔واضح رہے کہ اگر مڈل کلاس سکڑتی ہے تو خرچ کرنے والے کم ہوں گے، کاروبار اور روزگار کے مواقع بھی کم ہوں گے جس کا نقصان یہ ہوگا کہ پیسے بچانے والے افراد کی تعداد کم ہوجائے گی۔ عام طور پر اپر کلاس طبقہ سرمایہ کاری پیدا کرتا ہے جبکہ بینکوں میں پیسے جمع کرکے بچت مڈل کلاس ہی سے آتی ہے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ ایک طرف مڈل کلاس طبقہ سکڑ رہا ہے اور دوسری طرف اپر کلاس یعنی امیر طبقے کی دولت میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جنہوں نے روزمرہ اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کرکے اربوں روپے کا ناجائز منافع کمایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل فائیو اسٹار ہوٹلز اور مہنگے ریسٹورنٹس کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ رمضان المبارک میں مجھے ایک دوست نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل ،جہاں ایک فرد کا افطارڈنر 5 ہزار روپے سے زیادہ تھا، میں دعوت افطار پر مدعو کیا اور یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی جو امیر طبقے میں پیسے کی فراوانی کو ظاہر کرتی ہے۔اسی طرح کچھ ماہ قبل اخبار میں یہ خبر پڑھ کر مزیدحیرانی سے دوچار ہوا ،جب ایک غریب ملک کے شہر لاہور میں ایک کینیڈین کافی شاپ کے افتتاح کے موقع پر عالمی ریکارڈ قائم ہوا اور دنیا بھر میں موجود ان کی ہزاروں کافی شاپس میں سب سے زیادہ سیل لاہورکی اس کافی شاپ میں ریکارڈ کی گئی اور یہ خبر برطانوی نشریاتی ادارے نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی جو دنیا میں حیرانی کا سبب بنی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں ایک کافی شاپ نے سیل کے تمام عالمی ریکارڈ توڑ دیئے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان میں اس وقت دو قطاریں توجہ حاصل کررہی ہیں۔ ایک طرف پاکستان کے بڑے شہروں میں کافی شاپ کے باہر لگی قطاریں جس میں لوگ پیسے تھامے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں جو امیر طبقے میں پیسے کی فراوانی کو ظاہر کرتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ قطاریں ہیں جہاں مایوس چہروں کے ساتھ لوگ راشن اور خیرات کے حصول کیلئے کھڑے ہیں جبکہ خیراتی اداروں کے باہر لنگر کے حصول کیلئے لگی قطاروں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ قطاریں پاکستان میں معاشی اعتبار سے دو انتہائی طبقوں یعنی انتہائی امیر اور انتہائی غریب طبقے کی عکاس ہیں جبکہ ان دونوں قطاروں کے درمیان مڈل کلاس طبقہ نظروںسے اوجھل ہے جو یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے۔