اسلام آباد (انصار عباسی) چند مغربی سفارت کاروں نے 9؍ مئی کے حملوں میں ملوث افراد اور حملہ آوروں کیلئے ریلیف حاصل کرنے کی خاطر سرکردہ عہدیداروں سے رابطہ کیا ہے لیکن اس بات کو سراسر نظر انداز کیا ہے کہ واشنگٹن اور لندن جیسے طاقتور دارالحکومتوں کو جب ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہوا تو انہوں نے خود واقعات میں ملوث کسی ذمہ دار کو معاف نہیں کیا تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق، حکومت نے ان سفارت کاروں کو آگاہ کیا ہے کہ یوم سیاہ قرار دیا جانے والا 9؍ مئی کا واقعہ پاکستان کیلئے جنوری 2021ء میں امریکا کے کیپیٹل ہل کے پرتشدد واقعات اور 2011ء کے لندن فسادات کے واقعات سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ تاہم حکام نے یقین دلایا ہے کہ 9 مئی کے حملوں میں ملوث تمام افراد کے ساتھ قانون اور آئین کے مطابق نمٹا جائے گا۔ ان سفارت کاروں کو بتایا گیا کہ ہر قابل فخر قوم اپنی ریاستی علامات کا احترام کرتی ہے اور غیرت کے ساتھ ان کی حفاظت کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 9 مئی کو پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا، اس دن سیاسی طور پر متحرک ہجوم نے ریاستی اداروں پر حملہ کیا، سرکاری اور نجی املاک کو نذر آتش کیا اور ملک کے مختلف حصوں میں شہداء کی یادگاروں اور ریاستی علامات کی توڑ پھوڑ اور بے حرمتی کی۔ حکومت پاکستان کچھ ایسے مغربی سینئر سفارت کاروں کے کردار سے بھی واقف ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں پاکستان کو اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ نہ کرنے والا ملک قرار دینے میں ملوث ہیں۔ ایسے سفارت کاروں کو حکام کی طرف سے یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ 9 مئی کے حملے ایسے نہیں ہیں جو دنیا میں پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ کئی قوموں نے اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں ایسے واقعات کا سامنا کیا ہے اور اپنے اپنے انداز سے لیکن سخت طریقے سے جواب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو ایسی صورت میں یہ انسانی حقوق کے چیمپئن بننے والے ملکوں کی جانب سے مچایا جانے والا یہ شور و غوغا کیسا کہ جب پاکستان نے اپنی مکمل تاریخ کے سیاہ ترین دن کے منصوبہ سازوں اور سازش کرنے والوں کیخلاف آئین و قانون کے مطابق اور ضروری قانونی کارروائی کی۔ کہا جاتا ہے کہ جنوری 2021ء میں واشنگٹن کے کیپیٹول ہل کے واقعات کا تقابل پاکستان کے 9؍ مئی کے واقعات سے کیا جائے تو واشنگٹن کے واقعات کم سنگین نوعیت کے معلوم ہوں گے۔ اُس دن امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کے بعد ان کے حامیوں نے ہجوم کی صورت میں کیپیٹول ہل پر حملہ کیا تھا۔ دو ہزار سے زائد فسادی عمارت میں داخل ہوئے، کئی افراد نے عمارت کے مختلف حصوں پر قبضہ کر لیا، توڑ پھوڑ کی اور پولیس والوں پر حملہ کیا۔ ایک ذریعے نے بتایا کہ پاکستان میں، 9 مئی کو تقریباً 45؍ ہزار فسادی ملک کے مختلف حصوں میں 485 مقامات پر اکٹھے ہوئے اور قومی نشانات، اہم فوجی تنصیبات بشمول فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو)، پاکستان ایئر فورس کے اڈوں، جناح ہاؤس لاہور اور شہداء کی یادگاروں کی توڑ پھوڑ کی۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ اقدام منظم بغاوت سے کم نہیں تھی۔ حکام نے یاد دہانی کرائی کہ 6 جنوری کو کیپیٹول ہل کے حملوں کے بعد امریکی محکمہ انصاف نے ملکی تاریخ میں بڑے پیمانے پر پیچیدہ ترین تحقیقات کا آغاز کیا اور اس میں تمام وسائل بروئے کار لائے گئے۔ ’’اوتھ کیپرز‘‘ نامی تنظیم کے بانی اسٹیورٹ رہوڈز کو 18 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اسی طرح کے دو دیگر ملزمان پیٹر شوارٹز اور کیلی میگس کو بالترتیب 14 سال اور 12 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ امریکا نے سویلینز پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کیلئے مخصوص قوانین بنائے ہیں اور حملے کی نوعیت اور نقصان کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ملزمان کیخلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلائے جانے کا امکان زیادہ ہے۔ ذرائع کے مطابق، امریکی قانون میں کئی دفعات ایسی ہیں جن کے تحت فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً، امریکا نے ملٹری کمیشن ایکٹ (MCA)، 2006 نافذ کیا تاکہ ان لوگوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکے جو امریکا کے خلاف اقدامات میں ملوث ہیں (ان میں سویلین بھی شامل ہیں) مثلاً محفوظ املاک پر حملہ کرنا، یرغمال بنانا وغیرہ۔ 2007 میں ڈیوڈ میتھیو ہک وہ پہلے سویلین تھے جن کیخلاف ایم سی اے کے تحت مقدمہ چلایا گیا تھا۔ ان ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے 12 جون 2008 کے اپنے فیصلے میں یہ بھی قرار دیا تھا کہ فوجی عدالتیں عام شہریوں کے ٹرائل کر سکتی ہیں اور فوجی عدالتوں کو ٹرائل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ مزید برآں، ریاست ہائے متحدہ امریکا میں امریکی کوڈ (U.S.C) -18 کے تحت کئی قوانین آتے ہیں جن میں جرائم اور فوجداری طریقہ کار (CCP) اور کوڈ آف فیڈرل ریگولیشنز (CFR) جو عوامی املاک پر حملہ کرنے یا زخمی کرنے والے، عمارتوں پر حملے کرنے والے پرتشدد ہجوم کے خلاف کارروائی کا طریقہ اور سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ برطانیہ میں اگست 2011 میں لندن پولیس کے ہاتھوں 29 سالہ مارک ڈوگن کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے بعد فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں فسادات توڑ پھوڑ میں تبدیل ہوئے جس سے مقامی کاروبار تباہ ہوا، حکومت نے مظاہروں پر قابو پانے کیلئے ایمرجنسی نافذ کی جسے بعد میں عوامی عدالتی انکوائری کمیشن نے بھی درست قرار دیا۔ پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگانے والے ترقی یافتہ مغربی ممالک نے ماضی میں اپنے بحرانوں کے حل کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام سمیت مایوس کن اقدامات کا سہارا لیا۔ کوئی مہذب قوم ایسی بیہودہ حرکتوں اور انتشار کی اجازت نہیں دے سکتی جو عوام کے تحفظ اور ریاست کی سالمیت کو خطرے میں ڈالیں۔ فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کا ٹرائل بین الاقوامی قانون کے تناظر میں غیر قانونی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں، امریکا میں قانونی نظام سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے جہاں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کی متعدد مثالیں موجود ہیں اور پاکستان کو کچھ مختلف یا غیر معمولی اقدام کرنے والے ملک کے طور پر دیکھا جائے گا اور نہ ہی اس کے ساتھ ایسا کوئی برتائو کیا جائے گا۔
اسلام آباد وفاقی بیورو کریسی کے تقرر و تبادلے ، نوٹیفکیشن جاری ، ڈائریکٹر جنرل پاکستان انسٹیٹیوٹ آف...
اسلام آباد ڈی 8 اجلاس؛ پاکستان تکنیکی ترقی کے اہداف کو حاصل کرے گا، وزیراعظم شہباز شریف کی مصر، انڈونیشیا...
لاہوروزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے چین سٹور ایسوسی ایشن پاکستان کے وفد نے ملاقات کی ،لاہور میں چین سٹورز...
اسلام آباد وفاقی حکومت نے یکم جنوری 2025 سے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک کیلئے لائسنسنگ نظام شروع کرنے کا فیصلہ...
اسلام آباد پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے وفاقی دارالحکومت میں نائب وزیر اعظم اسحاق...
کراچی جیوکے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف، بیرسٹر گوہر...
اسلام آباد صدر مملکت آصف علی زرداری ،وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جنوبی وزیرستان اور لکی مروت میں خوارجی...
کراچیصدرمملکت آصف علی زرداری کی جانب سے مدارس رجسٹریشن بل پر اعتراضات لگاکر وزیراعظم آفس کو واپس بھیجنے پر...