مسکان! تمہاری جرأت کو سلام

انصار عباسی
10 فروری ، 2022
کس سے منصفی چاہیں … انصار عباسی
مسکان کون ہے، کہاں رہتی ہے، کیا کرتی ہے؟ دو دن قبل تک اُس کو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن آج یہ نوجوان لڑکی پوری امت مسلمہ کے لیے فخر کا باعث بن چکی ہے۔ امت کی اس بیٹی کا تعلق نفرت اور ظلم کا نشان بننے والے آج کے مودی کے بھارت کی ریاست کرناٹک سے ہے جہاں حال ہی میں تعلیمی اداروں میں مسلمان طالبات کے لیے حجاب لینے پر پابندی عائد کی گئی۔ گزشتہ روز وائرل ہونے والی ایک وڈیو میں مسکان کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی سواری پر باحجاب کالج کے پارکنگ ایریا میں داخل ہوتی ہے تو وہاں درجنوں ہندوتوا کے غنڈے زغفرانی جھنڈے اُٹھائے پہلے ہی حجاب کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ مسکان کو برقع میں آتے دیکھ کر وہ سب نعرے لگاتے اس نہتی مسلمان طالبہ کی طرف دوڑے اور اُس کو ہراساں کرنے لگے لیکن آفرین ہے اسلام کی اس بیٹی پر جس نے بغیر گھبرائے اور ڈرے کمال جرأت کے ساتھ ان سب غنڈوں کے نعروں کے جواب میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کے نعرے ایسے بلند کیے کہ سب دنگ رہ گئے۔ کمال بہادری کے ساتھ نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے یہ باپردہ اسلام کی بہادر بیٹی بڑے آرام سے کالج میں داخل ہو گئی۔ اس بچی کی بہادری اور اسلام پسندی نے چند گھنٹوں میں پوری دنیا کو حیران کر دیا اور دنیا بھر کے مسلمان خصوصی طور پر اس پر بہت خوش ہوئے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ سے امتیازی سلوک ہوتا رہا ہے لیکن مودی کے آنے کے بعد ہندوتوا مائنذ سیٹ وہاں بہت زیادہ پھیل گیا جس کی وجہ سے بھارت میں رہنے والی اقلیتوں کے لیے عمومی طور پر اور مسلمانوں کے لیے خصوصی طور پر زندگی اجیرن بنا دی گئی۔ آئے روز وہاں کسی ایک بہانے یا کسی دوسرے بہانے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جاتا ہے، اُنہیں ہندوتوا کے غنڈے آئے دن بےدردی سے ریاست کی حمایت کے ساتھ قتل کرتے ہیں، وہاں مسلمانوں کے لیے رہنا مشکل کر دیا گیا ہے، حکومتی پالیسیاں اور فیصلے اس انداز میں کیے جا رہے ہیں کہ بھارت میں ماسوائے ہندووں کے کوئی دوسرا نہ رہ سکے اور خصوصاً وہاں کے رہنے والے مسلمانوں کے لیے یہ ایک مشکل ترین دور ہے۔ سیکولر انڈیا کا چہرہ بےنقاب ہو چکا، اب بھارت ایک ایسے راستے پر چل نکلا ہے جہاں شدید خطرہ ہے کہ وہاں گجرات کی مسلمانوں کے قتلِ عام کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔ حالات ایسے پیدا ہو رہے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ریاستی لیول پر اُبھارا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں مسکان کی جرأت اور بہادری اگر ایک طرف بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے حوصلہ افزائی کا ذریعہ بن سکتی ہے تو وہیں یہ واقعہ اسلامی دنیا کے بےحس حکمرانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا باعت بن سکتا ہے۔ بھارت جو ظلم اپنے ہاں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے اور جس بربریت کا سامنا کشمیریوں کو وہاں ہے اُس کو روکنے کے لیے دنیا کو اپنی بےحسی ختم کرنا پڑے گی اور اس کے لیے مسلمان ممالک کو مل کر آواز اُٹھانی پڑے گی۔ اگر مسکان کو دیکھ کر بھی مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو شرم نہ آئی اور اُن کے سوئے ضمیر نہ جاگے تو پھر وہ کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟ یہ وارننگز تو پہلے سے ہی دی جا رہی ہیں کہ بھارت تیزی سے ایسے حالات کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں مسلمانوں کا بڑی سطح پر خون خرابہ ہو سکتا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر اگر ایک طرف ہم پاکستانیوں کو اپنے رب کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمیں ایک آزاد ملک نصیب ہوا تو دوسری طرف بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک اور اُن کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ میری دعا ہے کہ مسکان کی بہادری اور جرأت سے بھارت میں رہنے والے مسلمان رہنمائی حاصل کریں گے اور اپنے خلاف بڑھتی ہوئی ناانصافیوں اور مظالم کے خلاف یک زبان ہو کر آواز بلند کریں گے۔ پاکستانی عوام کی طرف سے مسکان کی جرأت کو بہت سراہا گیا لیکن مجھے حیرانی ہے کہ ابھی تک وہ بڑے بڑے سیاستدان جو بھارتی گلوکارہ لتا منگیشکر کی موت پر بہت افسردہ تھے اور اُنہوں نے اس پر اپنے تعزیتی بیان بھی دیے اور سوشل میڈیا میں ٹویٹس بھی کیں، وہ کرناٹک کی اس بہادر مسلمان لڑکی کی جرأت پر کیوں خاموش ہیں؟ امید ہے وزیراعظم عمران خان، شہباز شریف، مریم نواز، نواز شریف، بلاول بھٹو وغیرہ اس بارے میں بولیں گے، اسلام کی اس بیٹی کی حوصلہ افزائی کریں گے، کیوں کہ یہ حوصلہ افزائی دراصل بھارت کے مسلمانوں پر ظلم و ستم روکنے کے لیے ضروری ہے۔ مسکان کو سلام۔ اللہ تعالی اسلام کی اس بیٹی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)