صحافیوں کے تحفظ کا قانون، شق 6 بظاہر خلاف آئین ،اسلام آباد ہائیکورٹ

10 فروری ، 2022

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ پہلے ہی پیکا ایکٹ آزادی اظہار رائے کیخلاف استعمال ہو رہا ہے ، پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹ کی سیکشن 6 بادی النظر میں آئین میں درج بنیادی حقوق کیخلاف ہے۔ جرنلسٹس کی تعریف میں فوٹو گرافرز ، کیمرا مین ، پروڈیوسرز اور ایڈیٹرز بھی شامل ہیں، فاضل چیف جسٹس نے وزارت اطلاعات اور وزارت انسانی حقوق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ماہ میں جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت نے حکم دے رکھا ہے کہ ریاست اپنے عمل سے ثابت کرے کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ جرنلسٹس پروٹیکشن ایکٹ کی سیکشن چھ میں لکھے الفاظ سے صحافیوں کیخلاف مقدمے کا لائسنس مل جائے گا ، بتائیں صحافیوں پر قابل دست اندازی پولیس قوانین کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر تو صحافی کوئی خبر نہیں دے سکے گا ، پاکستان میں مقدمہ درج ہونے سے بھی بہت کچھ ہو جاتا ہے۔ درخواست گزار اور اٹارنی جنرل کیساتھ بیٹھ کر آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تناظر میں اس کو دیکھیں۔ وزارت انسانی حقوق مطمئن کرے کہ ایکٹ کی متعلقہ شق آئین سے متصادم نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جرنلسٹس کی تعریف میں فوٹو گرافرز ، کیمرا مین ، پروڈیوسرز اور ایڈیٹرز بھی شامل ہیں ، رائٹ ٹو انفارمیشن اور فریڈم آف ایکسپریشن صرف میڈیا کا مسئلہ نہیں ، جب تک تنقید نہیں ہو گی احتساب نہیں ہو سکتا ، پبلک آفس ہولڈر کا بہترین احتساب معلومات تک رسائی اور تنقید ہے۔ نمائندہ وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ درخواست گزار کے خدشات کو دیکھ کر اس کا حل نکالیں گے ، ضرورت پڑی تو پارلیمنٹ میں ترمیم تجویز کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قوانین کے غلط استعمال کے حوالے سے پی ایف یو جے کا شکوہ بے جا نہیں ، جس طرح عدلیہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو جوابدہ ہے ، اسی طرح خبر دینے والے کو بھی کام کے دوران پولیس کا خوف نہیں ہونا چاہئے۔