شہباز شریف کے خلا ف این سی اے کی تفتیش کا بڑا انحصاربر طانوی اخبارپر تھا

10 فروری ، 2022

لندن(مرتضیٰ علی شاہ) میڈیا نے الزام لگایا ہے کہ شہباز شریف کے خلا ف این سی اے کی تفتیش،کیس اور شواہد کا بڑا انحصار ڈیلی میل میں شائع ہونے والے مضامین میں لگائے گئے ان الزامات پر تھا جو پہلے پاکستان میں سامنے آئے اور پھر14 جولائی 2019 میں شائع ہونے والے مضامین پر تھا ،اخبار نے یہ خبر بھی دی تھی کہ اثاثوں کاریکوری یونٹ اور این سی اے باہم مل کر شہباز شریف سے متعلق منی لانڈرنگ اور ان کوملک بدر کئے جانے کے بارے میں کام کررہے ہیں۔ ڈیلی میل کے سابق رپورٹر ڈیوڈ روز نے اپنے مضمون میں شہباز شریف اور ان کی فیملی پربرطانیہ کی جانب سے دی گئی امدادی رقم چرانے اور برطانیہ،دبئی اور پاکستان کے درمیان منی لانڈرنگ کا نیٹ ورک چلانے کا الزام بھی عاید کیاتھا۔این سی اے نے ڈیوڈ روزکے آرٹیکل میں دی گئی معلومات کی بنیاد پر شہباز شریف کے خلاف 2 سال تک اس معاملے کی تفتیش کی لیکن کرمنل کنڈکٹ ،منی لانڈرنگ اور سرکاری عہدے کے غلط استعمال ثابت نہیں کرسکا جس پر یہ مقدمہ بند کردیاگیا۔اے ایف او کی اصل تحقیقات میں ڈیلی میل میں شائع ہونے والے ڈیوڈ روز کے مضمون کو ثبوت کے طورپر پیش کیاگیاتھا کہ شہباز شریف اور ان کی فیملی کے ارکان نے چوری کی گئی رقم اور رقم کی لانڈرنگ کیلئے برطانیہ کو استعمال کیا ،پہلی درخواست میں این سی اے کو اے آر یو کی جانب سے لکھے جانے والے خط کے علاوہ شہباز شریف اور سلیمان کے خلاف مقدمے اورشہباز شریف ،سلیمان اور ان کی اہلیہ زینب سلیمان کی ویزا کی درخواستوں اورپاکستان کے اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین کی تفصیلات دی گئی تھیں کوئی غیر جانبدار شہادت پیش نہیں کی گئی تھی۔ڈسٹرکٹ جج اکرام نے این سی اے کی جانب سے یہ یقین دلائے جانے پر کہ 4 بینکوں میں موجود رقم ریکور ی کے قابل ہے اور اسے کوئی بھی غیرقانونی کام کیلئے استعمال کرسکتاہے،اکائونٹ 12 ماہ کیلئے منجمد کرنے کے احکامات دئے تھے، این سی اے نے جج کومطمئن کردیاتھا کہ شہباز شریف وار سلیمان شریف دونوں کے خلاف پاکستان میں تفتیش ہورہی ہے اور چاروں اکائونٹ پاکستان میں شہباز گروپ کی مجرمانہ آمدنی کاحصہ ہیں اور بعض ٹھوس شواہد بھی پیش کئے تھے جو ڈیلی میل کے مضمون میں شائع کئے گئے تھے ۔ انٹرنیشنل کرپشن یونٹ میں این سی اے کے آپریشن منیجر انوسٹی گیشن نے اپنے عملے شہباز اور ان کے بیٹے کے خلاف منی لانڈرنگ کی تفتیش کے بارے میں بتایا تھا اور یہ بھی بتایاتھا کہ اے آر یو کا دائرہ کار کیاہے اور اے آر یو نیب،ایف آئی اے اورایف بی آر کی جانب سے این سی اے کے ساتھ مل کر کام کیوں کررہاہے ،اے آر یو نےویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کردہ ایک ڈاکومنٹ میں کہاتھا کہ7دسمبر2019 کو این سی اے نے اسے اطلاع دی تھی کہ وہ اثاثے منجمد کرنا چاہتاہے،نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل شہزاد سلیم نے الندن میں ین سی اے کے آپریشنز منیجر سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں برطانیہ میں تفتیش کے سربراہ نے انھیں شہباز شریف پر مقدمات کے بارے میں بریف کیاتھا ،11 دسمبر کو اے آر یو نے شہباز اور سلیمان کے مقدمات سے متعلق تفصیلات این سی اے کو بھیج دی تھیں،19دسمبر 2019کو شہباز شریف ،سلیمان شہباز اور ان کے دوست ذوالفقار احمد کے خلاف تفتیش شروع کی گئی ،تفتیش کامحور 315000پونڈ کی وہ رقم تھی جو شہباز شریف نے 2019 میں سلیمان کو دی تھی، شہباز شریف نے 2005 اور 2012 میں انیل مسرت سے 2 مختلف پراپرٹیز کیلئے 2 قرض لئے،ذولفقار احمد کی جانب سے دئے گئے 300000 پونڈ ڈیلی میل کے کیس میں شہباز شریف کے وکیل کارٹر روک کو دئے گئے جبکہ ایک قرض کی رقم سےذوالفقار احمد کی جانب سے اپریل سے نومبر کے دوران سلیمان شریف کودئے گئے200,000 پونڈ کا قر ض ادا کیاگیا۔این سی اے کو شبہ تھا کہ انیل مسرت وار ذوالفقارنے شہباز شریف اور سلیمان کو یہ رقم ان کے فرنٹ مین کے طورپر ادا کی تھی۔وکلا نے این سی کو بتایا کہ ذوالفقار احمد نے سلیمان کو یہ قرض لندن میں حمزہ شریف کی بیٹی کے علاج کا75,000 پونڈ کابل ادا کرنے کیلئے دیاتھا کیونکہ وہ این ایچ ایس کے ہسپتال میں علاج کرانے کی حقدار نہیں تھیں اور ہسپتال کو ان کا پرائیوٹ علاج کرنے کیلئے 197,745.50 پونڈ پیشگی ڈپازٹ چاہئے تھے۔شریف کے وکلا نے این سی اے کو بتایا کہ 2018 کے آخر میں شریف کیلئے پاکستان سے فنڈ لانا ناممکن ہوگیاتھا ۔ کم وبیش ایک ہزار صفحات میں این سی اے بعض ردوبدل اور نظرثانی شدہ 550 صفحات جاری کئے ہیں، جبکہ بقیہ صفحات جو کہ2018 اور اس کے بعد این سی اے کی تفتیش ،سنسنی خیز ڈاکومنٹس ،اور این سی اے کی پاکستان اور دوسروں کو ساتھ شریف فیملی کے حوالے سے کے حوالے سے ہیں روک لئے گئے ہیں۔جاری کردہ زیادہ تر ڈاکومنٹس اے آر یو نے این سی کو فراہم کئے تھے،اس میں تفتیش کے دوران اثاثے منجمد کئے جانے کے احکامات ختم کرنے کے حکم سمیت مختلف عدالتوں کے کم وبیش 25 احکامات شامل ہیں ،اے آریو نے جو میٹریل فراہم کیاتھا اس میں اے آر یو کی جانب کی جانب سے کی جانے والی مختلف ای میلز ،نیب کے ریفرنسز،آمدنی سے زاید اثاثوں سے متعلق تفتیشی رپورٹ اورشہباز شریف اور فیملی کے خلاف آشیانہ ہائوسنگ اسکیم ،رمضان شوگر ملز کے حوالے سے منی لانڈرنگ،نیب لاہور کی منی لانڈرنگ سے متعلق ایف آئی آر سے متعلق مقدمے کے بارے میں رپورٹ پرمشتمل تھا۔اے ایف او کی اصل درخواستیں15 انیکسیز پر مشتمل تھیں ،جن میں پہلی این سی اے کے شبہے سے متعلق 16 صفحات پرمشتمل ڈاکومنٹ اور 3 قانون اور رولز کے بارے میں شامل ہیں۔بقیہ 11 انیکسیز میں 5 انٹرنیٹ نیوز کے آرٹیکل اور ایک ویب سائیٹ کے اسکرین شاٹ پر مشتمل ہیں،این سی اے کو شبہ تھا کہ شہباز شریف اور ان کابیٹا پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے عہدے کافائدہ اٹھاتے ہوئے اور پاکستان میں شریف گروپ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملک منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔این سی اے نے بتایا ہے کہ اس درخواست میں نیشنل کرائم ایجنسی کے مالیاتی تفتیش کاروں کوسلیمان شریف کے اکائونٹس میں مشتبہ قابل ریکوری پراپرٹی کا اصل ذریعے معلوم کرنے کیلئے برطانیہ اور بین الاقوامی سطح پر تفتیش کرنے کیلئے وقت دینے کی استدعا کی گئی تھی این سی اے نے یہ بھی بتایا کہ وہ سلیمان اور ان کے والد کے کسی آف شور اکائونٹ کا پتہ چلانے کیلئے بین الاقوامی سطح پر کام کررہی تھی جس میں پاکستان، سینٹ ونسنٹ ،سوئٹزرلینڈ اورGrenadines شامل تھے،این سی اے کواپنی تفتیش کے دوران کسی خفیہ اکائونٹ کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔این سی اے کے افسر نے جج سے کہا کہ مجھے اب بھی شبہ ہے کہ سلیمان شریف کے بینک اکائونٹ میں موجود رقم جس کو منجمد کرنے کے احکامات دئے گئے تھے قابل وصولی پراپرٹی ہے۔منجمد فنڈز کی تفتیش نہ صرف عوام کے مفاد میں ہے بلکہ اس سے بین الاقوامی کرپشن پرتوجہ مرکوز ہوتی ہے اور قابل ضبطی پراپرٹی کی نشاندہی ہوتی ہے۔دستاویزات میں شامل ایف آئی اے کی ایف آئی آر میں جو 14-11-2020 کو اینٹی کرپشن سرکل لاہور نے درج کی تھی اور این سی اے کو بھیجی گئی تھی 2008سے18 کے دوران مبینہ کرمنل کنڈٹ کا ذکر کیاگیاہے۔