ملکی معیشت میں بہتری کیلے درآمدی تجارتی شعبوں کے مسائل حل کئے جائیں:ماہرین

10 فروری ، 2022

لاہور (رپورٹ :سکندر حمید لودھی)حکومت ملک میں درآمدی تجارت سے متعلقہ شعبوں کے مسائل حل کرے۔ اس سے نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی اور کاروباری حالات میں بہتری ہوسکتی ہے۔طبی آلات کی درآمد میں نجی شعبہ کو درپیش مشکلات حل کرنے کیلئے حکومت کو ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔ خیراتی اداروں کیلئے ٹیکس چھوٹ قوانین کو آسان بنایا جائے۔ ملک میں ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جس سے درآمدی کاروبار کرنیوالوں کی مشکلات آسان ہوں۔اس کیلئے کسٹم ایکٹ میں ضروری تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے ایف بی آر اور بالخصوص کسٹم اور نجی شعبہ کے افراد کی مشترکہ مشاورتی کمیٹی بنانے پر غور کیاجاسکتا ہے۔ بلاوجہ پابندیوں سے عوام کو نقصان ہورہا ہے،NPO سرٹیفکیٹ حصول کا مسئلہ حل کیا جائے۔پالیسی میں اصلاحات ،دستاویزاتی عمل سہل بنایا جائے۔ ان خیا لات کا اظہارجنگ آفس میں گزشتہ روز جنگ اکنامک سیشن میں ’’طبی آلات کی درآمد کے مسائل اور حکومتی پالیسیاں؟‘‘ کے موضوع پرچیئرمین طبی آلات امپورٹرز ایسو سی ایشن PMEDIAخالد چوہدری، سابق ڈائریکٹر DREAP ڈاکٹر احمد محمو د ممتا ز، چیف آپریٹنگ آفیسر نجی ہسپتال محمد نعیم گھرکی، طبی آلات امپور ٹر مسرور احمد خان اور مرتضیٰ علی خان نے کیا۔ نشست کے میزبان سکندر حمید لودھی تھے۔ خالد چوہدری نے کہاکہ پاکستان میں طبی آلات درآمد فری کر نےکی سہولت 31 دسمبر2021 کو ختم کر دی گئی۔ رجسٹریشن سر ٹیفکیٹ کے حصول سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا ہے ،غیر قانونی درآمدات کی حوصلہ افزائی سے قومی خزانے کو نقصان بھی پہنچتا ہے۔بے جا لائسنسوں سے ملک کا فائدہ نہیں ہوتا صرف کرپشن بڑھتی ہے۔ رجسٹرڈ اداروں کوچیمبرز سے کاروبار کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ طبی آلات کی درآمدی ایسوسی ایشن نے اس حوالے سے DREAP اور وزارت صحت کو کئی بار درخواستیں لکھیں لیکن حوصلہ افزا جواب موصول نہیں ہوا۔ ڈاکٹراحمد محمود ممتازنے کہاکہ حکومت کو چاہیے کہ ایسے قوانین بنائے جو ہر شعبے اور عوام کے مسائل میں کمی لائیں اب تک درآمدی پالیسی بالخصوص طبی آلات کی درآمدی حکمت عملی واضح نہ ہونے کے سبب طبی آلات کی درآمد میں مشکلات کا سا منا ہے۔دستاویزاتی عمل کو سہل بنانا ہو گا ۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں رجسٹریشن اور لائسنسنگ کے علاوہ درآمدی اشیا سے متعلق مسائل کو فوری حل کرنے کیلئے الگ شعبہ بنانا بھی از حد ضروری ہے۔ مسرور احمد خان نے کہاکہ نجی شعبہ صحت میں درآمدی طبی آلات کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے یا انہیں بین کرانے میں بڑا مافیاسر گرم ہے۔حکومت کی درآمدی پالیسیاں واضح نہ ہونے کی وجہ سے استعمال شدہ طبی آلات کی درآمد میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جن اداروں کے بارے میںکچھ جا ئز شکایات ہیں انکے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ باضابطہ طریقے سے فرائض انجام دینے والے اداروں کو اس فہرست میں شامل نہ کیا جائے بلکہ خصوصی مراعات دی جائیں ۔ مرتضیٰ علی خان نے کہاکہ پاکستان اکنامک سروے کے مطابق 2020-21 میں نجی شعبہ صحت میں حکومت کی جانب سے صرف 1.2فیصد خرچ کیا گیاجس کی شرح چاہے تاریخ کے اعتبار سے بلند ہو لیکن حوصلہ افزاء نہیں۔اس سے حکومت کی ترجیحات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔حکومت کو زمینی حقا ئق پر مشتمل حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے ،بلاوجہ پابندیاں لگانے سے نقصان بالآخرملکی عوام کو اُٹھانا پڑے گا۔ درآمدی پالیسی میں پابندیوں میں کمی کر کے آسانی پیدا کی جائے تو بہتر ہو گا۔محمد نعیم گھرکی نے کہا گزشتہ کچھ سالوں میں بڑھنے والے NPO سرٹیفکیٹ کے حصول کے مسائل اور درآمدی عمل کی پیچیدگیوں کودُور کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس عمل اور 17% سیلز ٹیکس اور یوٹیلیٹی بلز پر ٹیکس بڑھنے سے مالی اخراجات بھی بڑھنے پر خیراتی اداروں کیلئے نئے تجدید شدہ طبی آلات بہت مہنگے پڑتے ہیں ۔سکروٹنی کے نظام کو چینلائزکرنے سے درآمد کنندگان اور شعبہ صحت دونوں کو فائدہ ہوگا۔