ریلوے کے عروج وزوال کی داستان

عبدالرئوف مان
28 اگست ، 2023

شاندار ماضی کا امین ریلوےسسٹم اس وقت زوال کی ڈھلوان پر تیزی سے لڑھکتا نظر آتا ہے ،ریل کے پہیے کو کس طرح چلانا ہے یہ تو بعد کی بات ہے ،معاشی صورت حال اتنی دگرگوں ہوچکی ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لالے پڑے ہیں،برصغیر میں برٹش دور پر بہت تنقید ہوسکتی ہے ،لیکن ان کے دور کے بہت سے کام ایسے ہیں جن کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے،ان کی طرف سےدیا گیا شاندار ریلوے سسٹم ...ایک مثال ہے،یہ سسٹم 70ءکے عشرے تک ٹھیک چلتا رہا ،بعد میں حکومتی ترجہات بدلتی چلی گئیں،ریلوے نظر انداز ہوتا رہا،آج صورت حال یہ ہے کہ معاشی گرداب میں گھرا ریل سسٹم اب محفوظ سفر کی ضمانت دینے کے قابل بھی نہیں رہا،ماضی کے اوراق پلٹیں تو علم ہوتا ہے کہ 1847میں جب سرہنری ایڈورڈ فریئرنےکمشنر سندھ کا عہدہ سنبھالا توانہوں نے کراچی کی اہمیت اور بندرگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو ریل کانظام شروع کرنے کی تجویز ارسال کی ،مذکورہ تجویز کو شرف قبولیت ملی 1957کو اس حوالے سے سروے مکمل کیا گیا،1958کو کراچی سے کوٹری تک 169کلومیٹر طویل ٹریک پر کام شروع کردیا گیا ،13مئی 1861ءوہ تاریخی دن تھا جب موجودہ پاکستان میں میں پہلی بار ریل کے سفر کو عوام کے لیے کھول دیا گیا ،اس کے بعد برٹش دور میں ریلوے نے مڑ کرپیچھے نہیں دیکھا،۔جب برٹش دور ختم ہوا اور 1947ء میں پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودارہوا تو ا س کے پاس ایک شاندار ریلوے سسٹم موجود تھا،70ءکی دہائی تک یہ سسٹم بہتر انداز میں چلتا رہا،اس کے بعد ریلوے کو نظر لگ گئی ،یہ بتدریج زوال کا شکار ہوتا رہا،حکومتوں کی توجہ ریل سے ہٹ کر شاہراوں کی طرف چلی گئی ،اگرچہ شاہراوں کی تعمیر بری بات نہ تھی یہ وقت کا تقاضا بھی تھا ،لیکن جو بنیادی غلطی ہوئی وہ یہ تھی کہ اس پالیسی کو ریل کی قیمت پر اپنایا گیا، برصیغر کی تقسیم کے بعد پاکستان کے حصے میں5048 میل یعنی 12ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ریلوے لائنیں آئیں،بعدازاں بتدریج ان میں سے کچھ لائنیں متروک ہیں یا مکمل طور پر اکھاڑ دی گئی ہیں۔ریلوے سسٹم کے ساتھ بپا کیے گئے اس حشر کی مثالیں کچھ اس طرح کی ہیں ،1988ءمیں ٹنڈو آدم-محراب پورکی 202کلومیٹر برانچ لائن بند کردی گئی ،اسی سال پڈ عیدن جنکشن ریلوے اسٹیشن-تھاروشا جنکشن ریلوے اسٹیشن، 29 کلومیٹر ریلوے لائن بند، نواب شاہ -سکرنڈ جنکشن ریلوے اسٹیشن کی24 کلومیٹر براڈ گیج ریلو ے لائن بند ،2011ءمیں سمہ سٹہ-امروکہ سیکشن کی 257کلومیٹر برانچ لائن بھی بند کردی گئی ،متعدد دیگر برانچ لائنیں بھی بند کی گئی جگہ کی کمی اس کی تفصیل کی اجازت نہیں دیتی ،ہماری نااہلی پر غور کیجیے کہ دنیا اس وقت الیکٹرک ٹرینوں کی طرف جارہی ہے ،جب کہ ہم نے خانیوال سے لاہور تک الیکٹرک ٹرین سسٹم کو بھی2011 ءمیں ختم کرکے سانس لیا،وسائل کی کمی جس پر نااہلی کا تڑکا بھی لگایا جاسکتا ہےکی نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ ہم سے سکھر ریلوے ڈویژن کے معاملات قابو میں نہیں آرہےہیں،سکھر ملک کا وہ بدقسمت ریلوے ڈویژن ہے جہاں ٹریک کی خرابی اور اس کی مطلوبہ مرمت اور دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب سب سے زیادہ اور بڑے حادثات رونماءہوئے ہیں،ان حادثات میں جہاں سینکڑوں مسافر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے وہاں ریلوے کو اربوں روپے کا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا، ً دروغ برگردن راوی ً سکھر ریلوے ڈویژن کے ملازمین خاص طور پر ٹریک کی دیکھ بھال اور مرمت پر مامور سول انجینئرنگ سٹاف کی بھرتی میں سیاسی مداخلت کارفرماء رہی ہے،اس لیے بیشتر ملازمین ڈیوٹی میں برائے نام دلچسپی رکھتے ہیں ،اکثر گھر بیٹھے تنخوائیں وصول کرتے ہیں،اس دوران اگر کوئی سخت مزاج ڈی ایس یا ڈویژنل انجینئر سکھر تعینات ہوجائے تو سکھر کے ًشاہ صاحبان اور شیخ صاحبان ً درمیان میں آجاتے ہیں ،فرائض سے غفلت ،ڈیوٹی پر نہ آنے اور کسی جرم میں سزا پانے والے ملازمین ان کے پیچھے پناہ لے لیتے ہیں،لیہذاء ریلوے سکھر ڈویژن مسلسل ریل حادثات کی زد میں رہتا ہے،،اس پہلو کو اجاگر کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ دیگر ریلوے ڈویژنوں میں سیاسی مداخلت نہیں ہوتی ،بالکل ہوتی ہے لیکن اس کی اثر پذیری جو سکھر ڈویژن میں ہے کسی اور ڈویژن میں نہیں ہے،دیکھاجائے تو ریلوے کے موجودہ بحران کی ایک وجہ تو وسائل کی کمی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ریلوے کے ارباب اختیار کی پالیساں بھی ہیں،جس کے باعث کوئی بھی افسر ڈویژن میں اپنی معیاد بھی پوری نہیں کرپاتا،سکھر ریلوے ڈویژن ہی کی مثال لے لیں ،جہاں گزشتہ 11ماہ کے دوران چار ڈویژنل سپرنٹنڈنت تعینات ہوچکے ہیں ،جب کہ ڈی ایس کا ٹینور 3برس کا ہوتا ہے ،26ستمبر2022ء کو عرفان الحق کو ڈی ایس ریلوے سکھر تعینات کیا گیا،تین ماہ بعد ہی 21دسمبر کو ان کو تبدیل کرکے افتخار حسین کو نیا ڈی ایس مقرر کردیا گیا،تین ماہ بعد افتخار حسین کو بھی تبدیل کرکے محمود الرحمٰن لاکھو کو ڈی ایس ریلوے سکھر تعینات کیا گیا، 26اگست2023ءکو ان کو بھی تبدیل کردیا گیا ،عرفان الحق کو دوبارہ پھر ڈی ایس سکھر بنا دیا گیا،اب کوئی ریلوے کے ارباب اختیا ر سے کوئی پوچھے کہ ڈی ایس ریلوے کا ٹینور 3برس کا ہوتاہے یا 3ماہ کا ..؟اگر عرفان الحق کو دوبارہ ڈی ایس لگانا تھا تو اس کو 11ماہ قبل تبدیل کیوں کیا گیا،اس طرح کی پالیساں ہی ریلوے کے موجودہ بحران کا شاخسانہ ہیں جب کوئی افسر سالانہ کی بجائے ماہانہ بنیاد پر تعینات ہوگا تو وہ کیا خاک ڈلیور کرے گا،چلتے چلتے ریلوے ملتان ڈویژن پر نظر ڈالتے ہیں جہاں کے ڈی ایس حماد حسن مرزا کو تبدیل کیا جاچکا ہے انہوں نے تقربنا ایک سال 4ماہ اس عہدے پر خدمات انجام دیں،جب ان کو ملتان ڈویژن کی سمجھ آئی تو ان کو بھی تبدیل کردیا گیا،بہرحال حماد حسن مرزا نے جو وقت ملتان میں گذارا،بہت اچھا گذارا،وہ اپنی منکسرمزاجی اور خاموشی سے ڈلیور کرنے کی عادت کے باعث اچھی یادیں چھوڑ کرجارہے ہیں۔