جسٹس بندیال سیاست میں الجھ گئے، اس سے نکل نہیں پائے،ماہر قانون

17 ستمبر ، 2023

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ “ میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون ،عبدالمعز جعفری نے کہا ہے کہ جسٹس عمرعطا بندیال کی جو سب سے بڑی ناکامی رہی وہ جس سیاست میں الجھ گئے تھے وہ اس سے نکل نہیں پائے،چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل ،حسن رضا پاشانے کہا کہ جسٹس عمرعطا بندیال کے دور میں دھڑے بندی اس حد تک واضح ہوئی کہ ہم نے اس سے قبل اس قسم کی دھڑے بندی نہیں دیکھی،ماہر قانون ،احمد اویس نے کہا کہ نئے چیف جسٹس آئین کوبنیاد بناکر چلیں گے تو ملک میں بھی استحکام آسکتا ہے،سینئر کورٹ رپورٹر ،حسنا ت ملک نے کہا کہ عمر عطا بندیال کے لئے مشکل ہوگیا تھا کہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کریں یا اسٹیبلشمنٹ کو سپورٹ کریں،ان کو ایک پرو اسٹیبلشمنٹ جج کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل ،حسن رضا پاشانے کہا کہ بطور جج جسٹس عمرعطا بندیال کا دور بہت اچھا رہابڑے اچھے فیصلے کئے ان کا رویہ بہت دھیما اور اچھاتھا۔ہمیں توقع تھی کہ چیف جسٹس بننے کے بعد وہ کچھ ایسی انقلابی اصلاحات سپریم کورٹ میں لائیں گے ۔ بدقسمتی سے ہوا یہ کہ وہ اپنے ہاؤس کو ان آرڈر نہیں رکھ سکے اور چند مخصوص ججزپر انہوں نے اعتماد کرتے ہوئے انہیں تمام بینچز کا حصہ بنایاجس پر بار بار انگلیاں اٹھیں اعتراضات ہوئے۔ہم نے بھی بطور ادارہ پاکستان بار کونسل نے تین چار سے زائد مرتبہ ان سے اوپن کورٹ میں بھی اس کے علاوہ بھی استدعا کی یہ ادارے کے لئے نقصان دہ ہے۔دھڑے بندی اس حد تک واضح ہوئی کہ ہم نے اس سے قبل اس قسم کی دھڑے بندی نہیں دیکھی۔کچھ مقدمات ایسے تھے کہ اس میں صاف لگ رہا تھا کہ ایک مخصوص پارٹی کویا شخصیت کو وہ بے جا احسان دے رہے ہیں۔اگر سب کے ساتھ ایک جیسا رویہ ہوتا تو مناسب بات تھی۔جمعے کو ان کا آخری ورکنگ ڈے تھا توجس طریقے نیب ترامیم کو انہوں نے کالعدم قرار دیا وہ بھی لگا کہ وہ آخری چھکا مار کر جارہے ہیں۔نئے چیف جسٹس کے لئے بڑے چیلنجز ہیں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ انہوں نے اپنا ہاؤس ان آرڈر کرنا ہے۔ جو گروپنگ شدید ترین ہوچکی ہے اس کو کم کرنا ہے اس کو بہتر کرنا ہے۔جب تک یہاں اتحاد نہیں ہوگی اپنے فیصلے وہ آنے والے دنوں میں منوانے کے قابل نہیں ہوں گے۔ماہر قانون ،احمد اویس نے کہا کہ ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ تھا کہ نہایت ایماندار اورشائستہ فطرت کے انسان تھے۔ہر ایک سے ان کا برتاؤ بہت ہمدردانہ تھا کوئی تکبر نہیں تھا۔وہ آپس میں یونٹی بھی قائم نہیں رکھ سکے سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں اس سے قبل ایسا نہیں ہوتا تھا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا کیس جب چلاتو اس کے بعد ایک سلسلہ چل پڑا۔نئے چیف جسٹس آئین کوبنیاد بناکر چلیں گے تو ملک میں بھی استحکام آسکتا ہے۔ ماہر قانون ،عبدالمعز جعفری نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بندیال صاحب کا رویہ بہت شائستہ اور تمیز سے پیش آنے والا تھا ۔نوجوان وکلا کوموقع فراہم کرتے تھے۔وہ بظاہر آپ سے شرافت سے پیش آرہے ہوتے تھے دھیمے انداز سے پیش آتے تھے مگر وہ جو کرنے جارہے ہوتے تھے وہ شرافت والا کام شاید نہیں ہوتا تھا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جو ریفرنس تھی اس کے اندر انہوں نے اختلافی نوٹ لکھا۔وہ سیاست کررہے ہوتے تھے اور وہ سیاست بہت اچھے معیار کی نہیں کر پائے۔ان کی جو سب سے بڑی جو ناکامی رہی وہ جس سیاست میں الجھ گئے تھے وہ اس کے اندر سے نکل نہیں پائے۔انہیں اپنے دور میں غلطی دور کرنے کا بار بار موقع ملا ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہہ چکے ہیں کہ بینچز سینارٹی کو مد نظر رکھ کر بنائے جانے چاہئیں ۔ سینئر کورٹ رپورٹر ،حسنا ت ملک نے کہا کہ اگر آپ پچھلے چھ سال دیکھیں چار چیف جسٹس گزرے ہیں یہ دور بھی تسلسل تھا ایک ہی مائنڈ سیٹ تھاجس کی ایک ہی سوچ تھی۔۔یہ چاروں جو چیف جسٹس گزرے ہیں یہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور جنرل فیض کے قریب تھے ۔جب رجیم تبدیل ہوئی اور اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی سے کسی اور کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو ججز کے لئے پریشانی ہوئی۔عمر عطا بندیال کے لئے مشکل ہوگیا تھا کہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کریں یا اسٹیبلشمنٹ کو سپورٹ کریں۔ان کو ایک پرو اسٹیبلشمنٹ جج کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ان کے دور میں کوئی ایک بھی فیصلہ نہیں ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو سوال کیا ہو۔ ایک حد تک وہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کو خوش رکھنا چاہ رہے تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود وکٹم رہے ہیں جو پالیسیاں ان چاروں چیف جسٹس کی رہی ہیں کہ دھڑے سے سپریم کورٹ کو چلایا جائے اور کچھ ججز کو کارنر کیا جائے۔قاضیٰ فائز عیسیٰ کے جو اردگرد لوگ ہیں وہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔میزبان شہزاد اقبال نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص ججز پر مشتمل بینچز بنانے، سینئر ترین ججز کے مطالبات کومسلسل نظر انداز کرنے، اپنے ہی فیصلوں کے متضاد فیصلے دینے والے،خود کو وکلا تحریک کاآخری ڈائنو سار کہنے والے جسٹس عمرعطا بندیال آج چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ سپریم کورٹ کے افسران و اسٹاف سے الوداعی خطاب میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال آبدیدہ ہوکر خود کو ڈوبتے سورج سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کا ابھی وقت ہے سب بھرپور لگن سے کام کریں۔جسٹس عمرعطا بندیال پاکستان کے28 ویں چیف جسٹس رہے۔ وہ بطور چیف جسٹس19 ماہ 15 دن تک اپنے عہدے پر فائز رہے ۔وہ تقریباً9 سال 3 ماہ تک سپریم کورٹ کے جج رہے۔چیف جسٹس پاکستان کی حیثیت سے ان کا دورجتنا متنازع رہاا ن کے فیصلوں پر جتنی تنقید ہوتی رہی اس کی پاکستان کی عدالتی تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہے۔ جسٹس عمرعطا بندیال وہ واحد چیف جسٹس رہے جنہیں ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی ان کا نام لے کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ان پر جانبداری اور مخصوص سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے ون مین شو چلانے کے الزامات لگتے رہے۔