قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ نے مل کرسازش کا مقابلہ کیا ،حامد میر، عبدالقیوم صدیقی

18 ستمبر ، 2023

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار اور صحافی حامد میر جیو کے نمائندہ خصوصی عبدالقیوم صدیقی نے کہا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے مل کراپنے خلاف سازش کا تن تنہا مقابلہ کیا اپنا دفاع کیا، پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار حامد میر کا کہنا تھا کہ اس وقت لوگ بہت مایوس ہیں بے یقینی کی کافی صورتحال ملک میں نظر آرہی ہے ایسی صورتحال میں ایک ایسے چیف جسٹس آف پاکستان نے حلف اٹھایا ہے جس کے خلاف آج سے4 یا 5سال پہلے پاکستان کے جو طاقتور ترین لوگ تھے صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی او اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ان سب نے مل کر ان کے خلاف ایک سازش کی، ان کے خلاف ایک جھوٹا ریفرنس دائر کیا صورتحال یہ تھی کہ ایسا لگ رہا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ تنہا ہیں اور ان کو فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے پر عبرت کی مثال بنادیا جائے گا لیکن قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے مل کر تن تنہا مقابلہ کیا اپنا دفاع کیا انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس کے 10 رکنی بنچ کے سامنے بھی خود اپنا دفاع کیا اور مجھے یاد ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست کی تھی کہ میرے گھر کے ٹیلی فون ریکارڈ ہورہے ہیں اس کو روکا جائے لیکن مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اس وقت تمام ججز جو قانون کے علمبردار ہیں خاموش رہے تھے میں سمجھتا ہوں کہ اس صورتحال میں وہ صدر جس نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک جھوٹا ریفرنس دائر کیا آج اسی صدر نے قاضی فائز عیسیٰ سے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف لیا ہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ ایک عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں رول آف لاء نہیں ہے لیکن رول آف لاء کے راستے میں بالکل بہت ساری رکاوٹیں ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ اندھیرے میں امید کی ایک کرن ہیں لیکن مجھے یہ بھی نظر آرہا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے اس وقت بہت سارے چیلنجز ہیں تاہم ان سے توقع ہے کہ وہ پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی قائم کریں گے۔ اس وقت ایک چیلنج وقت پر الیکشن کا انعقاد ہے جس میں قاضی فائز عیسیٰ کا کردار اہمیت کا حامل ہوگا۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے بھی قاضی فائز عیسیٰ کے 2015 کے موقف اور اب کیا موقف ہوگا اس کو بھی دیکھنا ہوگا ۔ اس کے علاوہ لاپتہ افراد کا معاملہ بھی چیف جسٹس کیلئے ایک چیلنج ہوگا جس میں دو صحافی بھی شامل ہیں۔