سپریم کورٹ، بنچ مشاورت سے بننا شروع، چیف جسٹس کے پہلے دن تاریخی اقدامات، کئی گھنٹے طویل عدالتی کارروائی TV پر براہ راست نشر، عوام کی پذیرائی

19 ستمبر ، 2023

اسلام آباد(رپورٹ :رانا مسعود حسین، ایجنسیاں) چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پہلے دن تاریخی اقدامات، پہلے مقدمے کی بطور فل کورٹ سماعت کرنے والے چیف جسٹس بن گئے، کئی گھنٹے طویل عدالتی کارروائی ٹی وی پر براہ راست نشر کی گئی، پروٹوکول اور گارڈ آف آنر لینے سے انکار، بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو گاڑی بھی نہیں لی، 1300سی سی کار استعمال کرینگے، صرف ضروری اور مختصر سیکورٹی ہوگی، چیمبر کے باہر لگی تختی پر چیف جسٹس پاکستان کے بجائے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھ دیا گیا، عوامی سطح پر چیف جسٹس کے اس اقدام کی پذیرائی ہو رہی ہے، اس سے قبل ایسی روایت نہیں ملتی سپریم کورٹ میں بینچ مشاورت سے بننا شروع ہوگئے۔ عدالت عظمیٰ میں رواں ہفتے کیلئے تشکیل دئیے گئے مقدمات کی سماعت کیلئے پانچ بینچز کے حوالےسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو سینئر ترین ججوں، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی کمیٹی بنچوں کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کے حوالے سے مشاورت سے کام کریگی۔ دوران سماعت چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ملک کو نقصان ہو مجھے ایسا اختیار نہیں چاہیے، ازخود نوٹس کا اختیار چھوڑنے کو تیار ہوں، مان لیں کہ ماضی میں غلطیاں کی ہیں ،انا، تکبر کو ایک طرف رکھ کر ملک کا بھی سوچنا چاہیے، ہم مقدمات کے فیصلے کرنے کی تنخواہیں لے رہے ہیں، عوام ہم سے 57ہزار کیسز کا فیصلہ چاہتے ہیں، بتایا جائے پورا قانون غلط تھا یا چند شقیں۔ وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی، سپریم کورٹ کے معاملات میں کسی اور کی مداخلت ہو گی تو یہ سپریم کورٹ نہیں رہے گی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس کا احتساب نہ ہو، مارشل لاء دور کے فیصلوں کا پابند نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کی بادشاہت ختم کی، اس میں غلط کیا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کوئی ایسا قانون ہوسکتا ہے جو عدلیہ ریگولیٹ کرے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا رولز بنانے کا آئینی اختیار اس عدالت کو دیا گیا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کیا پارلیمنٹ عدالتی فیصلوں کو بے اختیار کرسکتی ہے، عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023کیخلاف دائر کی گئی آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران آٹھ رکنی بنچ کی جانب سے گزشتہ سماعت کے دوران اس قانون پر عملدرآمد پر جاری حکم امتناع کو برقرار رکھتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے جبکہ فریقین کو 25 ستمبر تک عدالت کے سوالوں کے جوابات کے ساتھ تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل فل کورٹ بنچ نے پیر کے روز سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کی ۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی قومی الیکٹرانک میڈیا پربراہ راست نشر کی گئی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ درخواست گز ار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اٹھا رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک رسائی یقینا سب کا حق ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیس کو فل کورٹ کے سننے سے اپیل کا حق متاثر ہو گا، چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل کے بارے میں نے بریک میں بھی سوچا ہے، اپیل کیلئے کسی کے حقوق کا متاثر ہونا ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کیا ہے، سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججوں پر مشتمل ہوتی ہے، کیا وہ گھر میں بیٹھ کر بھی سپریم کورٹ ہونگے،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم علمی بحث میں کیوں پڑے ہوئے ہیں، سول مقدمات میں 60 دن کے اندر نظر ثانی دائر ہوتی ہے میں کہہ سکتا ہوں یہ آئین کیخلاف ہے، اگر میں بینچ بنانے سے انکار کر دوں چھٹی پر چلا جائوں تو مجھے کون روک سکتا ہے۔