سابق امریکی سفیر کا عروج و زوال

اشتیاق بیگ
20 ستمبر ، 2023
2012 میں رچرڈ اولسن نے جب پاکستان میں امریکی سفیر کا عہدہ سنبھالا تو اُس وقت امریکہ اور پاکستان کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔ پاکستان، ایک برس قبل مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن اور نومبر 2011 میں سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی اور نیٹو فورسز کے حملے میں پاک فوج کے 24 جوانوں کی شہادت پر امریکہ سے سخت نالاں تھا۔ ایسے میں رچرڈ اولسن نے اپنے 30 سالہ سفارتی تجربے کی بناپر دونوں ممالک کے تعلقات کو پہلے کی سطح پر بحال کیا لیکن پاکستان میں اپنی تعیناتی کے دوران امریکی سفیر کو غیر ازدواجی تعلقات، غیر قانونی لابنگ اور بیرون ملک سے ملنے والے تحائف ظاہر نہ کرنے جیسے الزامات کا سامنا رہا۔
گزشتہ دنوں امریکی عدالت نے فیڈرل قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں 63سالہ سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو 3سال پروبیشن کی سزا اور 93400 ڈالر جرمانہ عائد کیا۔ رچرڈ اولسن پر الزام تھا کہ انہوں نے ذاتی فائدے کیلئے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور 2016میں امریکی وزارت خارجہ سے اپنی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد امریکی پالیسی سازوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور مالی فوائد کے عوض قطر حکومت کیلئے لابنگ کرتے رہے۔ واضح رہے کہ امریکی قانون کے تحت کسی بھی سینئر سفارتی اہلکار پر ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سال تک کسی غیر ملکی حکومت کو مشورہ دینے یا لابنگ کرنے پر پابندی عائد ہے۔ رچرڈ اولسن پر یہ بھی الزام تھا کہ انہوں نے پاکستان میں اپنی تعیناتی کے دوران ایک پاکستانی خاتون صحافی سے غیر ازدواجی تعلقات استوار کئے اور پاکستانی نژاد امریکی تاجر سے اس کیلئے 25ہزار ڈالر کی مدد حاصل کی جبکہ دبئی کے امیر سے تحفے میں ملنے والے 60ہزار ڈالر مالیت کے ہیرے کے زیورات بھی ظاہر نہیں کئے مگر رچرڈ اولسن ان الزامات پر سزا سے بچ گئے۔
رچرڈ اولسن کا شمار امریکی وزارت خارجہ کے سینئر سفارتکاروں میں کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے 34سالہ سفارتی کیریئر میں پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں سفیر رہ چکے ہیں جبکہ انہوں نے پاکستان اور افغانستان میں امریکی نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ رچرڈ اولسن کا کیس جب امریکی عدالت میں زیر سماعت تھا تو پاکستان کا نام مختلف حوالے سے تواتر کے ساتھ لیا جارہا تھا اور پاکستان دنیا بھر کے میڈیا میں شہ سرخیوں میں رہا کیونکہ امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے پاکستان میں تعیناتی کے دوران پاکستانی خاتون صحافی سے غیر ازدواجی تعلقات قائم کئے اور جس تاجر سے انہوں نے مراعات اور فوائد حاصل کئے، وہ بھی ایک امریکی نژاد پاکستانی تاجر عماد زبیری تھا۔ امریکی عدالت میں سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کا پاکستانی خاتون صحافی سے رومانوی تعلق تھا جس کے بارے میں انہوں نے اسلام آباد میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف کو آگاہ کیا تھا مگر اسلام آباد میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف نے رچرڈ اولسن کے موقف کی تردید کی حالانکہ امریکی وزارت خارجہ کے قوانین کے مطابق امریکی سفیر کیلئے ایسا کرنا لازم تھا۔ واضح رہے کہ جس وقت رچرڈ اولسن کا غیر ازدواجی تعلقات کا اسکینڈل سامنے آیا، اُس وقت اُن کی امریکی اہلیہ لیبیا میں امریکہ کی سفیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہی تھیں اور اسکینڈل کے بعد اہلیہ نے رچرڈ اولسن سے طلاق لے لی۔ بعد ازاں رچرڈ اولسن نے 2019میں اپنی پاکستانی گرل فرینڈ مونا حبیب سے شادی کرلی۔ رچرڈ اولسن پر یہ بھی الزام تھا کہ پاکستان میں اپنی تعیناتی کے دوران انہوں نے امریکہ میں پاکستانی نژاد تاجر عماد زبیری سے اپنی گرل فرینڈ مونا حبیب کیلئے 25 ہزار ڈالر کی مالی مدد حاصل کی جس کے بدلے رچرڈ اولسن نے پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے تاجروں کو ہتھیاروں کی فروخت کے حوالے سے کانگریس کے ممبران کے ساتھ لابنگ کے ذریعے عماد زبیری کی مدد کی۔ واضح رہے کہ پاکستانی نژاد امریکی تاجر عماد زبیری 2021 میں غیر قانونی مہم میں شراکت اور دیگر جرائم پر 12سال قید کی سزا بھگت رہا ہے۔ رچرڈ اولسن پر یہ بھی الزام تھا کہ پاکستان میں تعیناتی کے دوران انہوں نے لندن جانے کیلئے 18 ہزار ڈالر کا فرسٹ کلاس ٹکٹ ایک گلف انویسٹمنٹ کمپنی سے تحفتاً لیا تاہم دبئی کے امیر سے ملنے والے 60ہزار ڈالر مالیت کے ڈائمنڈ سیٹ کے بارے میں رچرڈ اولسن کا موقف تھا کہ مذکورہ جیولری ان کو نہیں بلکہ ان کی ساس کو دی گئی تھی۔
پاکستان میں تعینات کسی بھی امریکی سفیر کا شمار سب سے اہم غیر ملکی شخصیات میں ہوتا ہے جس سے ملنا پاکستانی حکمرانوں کیلئے بھی ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے اور امریکی سفیر کی بھیجی گئی تجویز پر امریکی حکومت اُس ملک اور حکومت کے بارے میں اپنی پالیسی تشکیل دیتی ہے۔ سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن پر لگائے گئے الزامات اور امریکی عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزا کو عالمی میڈیا نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا اور پاکستان بھی عالمی خبروں میں رہا۔ امریکی سفیر رچرڈ اولسن کی شہرت کی بلندیوں سے ذلت کی پستی تک ایک سبق آموز کہانی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کا عدالتی نظام بلاتفریق انصاف پر مبنی ہے اور کرپشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں، چاہے مجرم کتنا ہی اثر و رسوخ رکھتا ہو۔ اس طرح امریکی عدالت سے مجرم قرار دیئے جانے کے بعد سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کا 34 سالہ سفارتی کیریئر بے توقیری سے اختتام پذیر ہوگیا۔