معیشت کو چمٹی جونکیں

محمد مہدی
20 ستمبر ، 2023
پاکستان بد ترین معاشی بحران سے نبرد آزما ہے اور جب تک ہم مسائل کو طے شدہ طریقہ کارکے بجائے اپنی اپنی وضع کردہ حکمت عملی کے تحت حل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اس وقت تک مسائل بتدريج بڑھتے ہی چلے جائیں گے ۔ پاکستان کا اول مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاںادارے بار بار باہمی ٹکراؤ کا شکار ہوتے رہتے ہیں جب تک پارلیمنٹ ، عدلیہ ،فوج کے تصادم کا شائبہ بھی موجود رہے گا، اس وقت تک پائیدار ترقی کا حصول دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوگا ۔ تن تنہا کوئی ایک ادارہ امرت دھارےکا کردار ادا نہیں کر سکتا بلکہ ایسی کوشش کرنے کے جو نتائج ماضی میں ہمیں ڈستے رہے ہیں وہی نتائج پھر منہ چڑا رہے ہونگے ۔ عدلیہ میں حالیہ تبدیلی سے یہ توقع بجا طور پر قائم کی جا سکتی ہے کہ اب’ گڈ ٹو سی یو ‘کی ذہنیت صرف ماضی کا ایک تلخ باب ہی رہے گی اور عدالت سب کو ایک نظر سے دیکھے گی ۔ ویسے بھی نئے چیف جسٹس فائز عیسیٰ خود ایک بحران ، ایک سازش کا کامیابی سے مقابلہ کرکے اس منصب پر فائز ہوئے ہیں جس میں اس حد تک گھٹیا طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا کہ ان کی اہلیہ تک کو اس میں گھسیٹ لیا گیا تھا ۔ آج سے کوئی دو ڈھائی ماہ قبل ایک تقریب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ آپ اس لئے سازش سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے کہ آپ کا تعلق ایک با اثر خاندان سے ہے، انہوں نے جواب دیا تھا کہ خدا کی عطا تو ہر شے پر مقدم ہے لیکن اگر میں کسی کے حوصلہ دینے ، ساتھ نبھانے کی بنا پر سازش کو ناکام بنا سکا ہوں تو وہ صرف اپنی اہلیہ کی وجہ سے۔ ان کی تقرری کو ایک معمول کا واقعہ نہیں سمجھنا چاہئے کیوں کہ وہ سازش کی ناکامی کے بعد اس منصب پر فائز ہونے والے پہلے شخص ہیںاور اسی سبب سے اس بات کی پذیرائی کی جانی چاہئے کہ جب انہوں نے چیف جسٹس پاکستان کے منصب کا حلف لیا تو ان کی اہلیہ ان کے ساتھ کھڑی تھیں تا کہ یہ پیغام ماضی کے ان طاقتوروں تک پہنچ جائے کہ سب سازشوں کے باوجود تم ناکام ہو گئے اور آئین پاکستان کامیاب ہو گیا ۔ یہ ان کی جانب سے اپنی اہلیہ کیلئے احسان مندی کا اظہار تھا ۔ اب ذمہ داری کا بار نئے چیف جسٹس پر عائد ہو گیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو اس تصور سے، جو جولائی دو ہزار سترہ سے بری طرح مجروح ہو چکا نجات دلائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ سپریم کورٹ سب کی سپریم کورٹ ہے جو صرف آئین ، قانون کی پابند ہے اور اس کو ماضی قریب کی مانند آئین کو کسی کی بھی خواہش کے سبب ’ ری رائٹ ‘کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
دوسرا مسئلہ بھی معیشت کو دیمک کی مانند چاٹ رہا ہے اور وہ دہشت گردی اور امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال ہے ۔ دہشت گردی کا مسئلہ تو بلا شبہ افغانستان کی جانب سے ایک تسلسل اور پاکستان کے مسائل میں مزید شدت لانے کی ذہنیت کا نام ہے۔ جب افغانستان کے حوالے سے تسلسل کا ذکر کیا جاتا ہے تو بہت سے’’دانشور‘‘فوری طور پر دانشوری بگھارتے ہوئے اس صورت حال کا مورد الزام پاکستان اور پاک فوج کو ٹھہرانے لگتے ہیں کہ نا تو روسی مداخلت کے وقت پاکستان اپنا کردار ادا کرتا اور نہ ہی پاکستان کو افغانستان کی جانب سے مسائل کا مستقل طور پر سامنا کرنا پڑتا ۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی آزادی کے پہلے دن سے افغانستان کی جانب سے سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا رہا اور پاکستان سے دشمنی کا چورن وہاں ایسے بکتا رہا کہ یہ سب ہی وہاں بیچتے رہیں۔ جب انیس سو اڑتالیس میں افغانستان’’ قبائل‘‘کے نام سے نئی وزارت قائم کر رہا تھا یا 1949میں افغان فضائیہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں پاکستان کے خلاف پمفلٹ گرا رہی تھی یا1965 کی جنگ کے وقت مہمند ایجنسی کی جانب سے افغانستان نے مسلح مداخلت شروع کردی تھی جس کو مہمند کے غیور پٹھانوں نے ناکام بنایا تھایا ظاہر شاہ کا تختہ الٹنے کے بعد جب سردار داؤد نے ریڈیو پر اپنی پہلی تقریر میں پاکستان کے خلاف زہر اگلا تھا اور صورت حال اس حد تک خراب ہو گئی تھی کہ بھٹو اپنا انگلینڈ کا دورہ مختصر کر کے ہنگامی طور پر پاکستان لوٹ آئے تھے ۔یہ صرف دیگ کے چند دانےہیں ورنہ ایسے اقدامات کی ایک لمبی چوڑی فہرست موجود ہے ۔ پاکستان نے افغانستان کی جانب سے ان تمام اقدامات کے باوجود کوشش کی کہ اس کے تعلقات اپنے ہمسایہ کے ساتھ معمول پر آجائیں۔ ان کوششوں میں ذوالفقار بھٹو کے اس اقدام کو معروف سفارتی پہل سمجھا جاتا ہے، جب انہوں نے نومبر1973 میںافغان سفیر ڈاکٹر پوپل کو ایک سفارتی تقریب میں گرم جوشی سے گلے لگاتے اورپھول پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’لیٹ اَس اینڈ دی وار آف دا روزیز‘‘ مگر افغانستان کی جانب سے ٹکا ساجواب دیا گیا تھا ۔ اس سب کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ صورتحال کوئی نئی نہیں بلکہ افغانستان میں ایک ذہنیت موجود ہے اور اس ذہنیت سے نہ تو ماضی کی افغان حکومتیں دور تھیں اور نہ ہی افغان طالبان کی حکومت کی کوئی اور سوچ ہے ۔ اسی لئے بار بار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جب تک یہ ذہنیت برقرار رہے گی کابل سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نہیں چل سکیں گے ۔ مولانا فضل الرحمن نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر کرنے کیلئے کردار ادا کرنے کی پیش کش کی ہے اگر وہ ایسا کر سکتے ہیں تو ان کی اس صلاحیت سے فی الفور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے مگر اس میں حقیقی معنوں میں کامیابی صرف اس وقت حاصل ہوگی جب افغان طالبان کی حکومت ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کر کے اس کے احترام پر راضی ہو جائے گی کیوں کہ ٹی ٹی پی کو کبھی کھل کھیلنے دینا ،کبھی کچھ اور حکمت عملی اختیار کرنا در حقیقت اس بات کی غماض ہے کہ وہ پاکستان کی سرحد کا احترام نہیں کرتےاور اس حوالے سے ان کی سوچ بھی ماضی کی افغان حکومتوں کی مانند ہے۔