امت محمدیؐ کا فرض منصبی

اداریہ
29 ستمبر ، 2023

خاتم الانبیا رحمۃ اللعالمین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کو قمری تقویم کے حساب سے آج 1498 سال ہوگئے۔ دنیا بھر میں مسلمان ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو عید میلاد النبی ؐ مناتے ہیں۔ تاہم آقائے نامدار ؐ سے محبت کے اس تعلق کا اصل تقاضا اپنی زندگیوں کو آپؐ کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا اور حتی الامکان انہیں دوسروں تک پہنچانا ہے۔ ڈیڑھ ہزار برس کی اس طویل مدت میں نبی کریمؐ کی تعلیمات کا مکمل طور پر محفوظ رہنا انسانی تاریخ کا بے مثال واقعہ ہے کیونکہ دیگر انبیاء کی تعلیمات چند عشروں تک بھی تحریفات سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔ نبی کریم ؐ کے معاملے میں ایسا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے بعد قیامت تک کسی نئے نبی کو دنیا میں نہیں آنا۔ قرآن میں اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے نبی پاک کو مخاطب کرتے ہوئے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ’’ ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘ ۔ خاتم الانبیاء اور آپ پر ایمان لانے والوں کے فرض منصبی کی مزید وضاحت سورۂ بقرہ میں قبلے کی تبدیلی کے حکم کے ساتھ ان الفاظ میں فرمائی گئی ہے کہ ’’ اس طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔‘‘ اس فرمان الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس نظریہ حیات کے مطابق مدینے کی ریاست میں زندگی کے پورے نظام کو قائم فرمایا ہم مسلمان بھی اپنے اپنے دائرہ اختیار میں ان تعلیمات کو قولاً دوسروں تک پہنچائیں اور ان کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال کر اس حق کی عملی گواہی دیں۔ اس ذمے داری کا تقاضا تھا کہ آج دنیا کی تمام مسلم ریاستوں کا سیاسی معاشی عدالتی اور تعلیمی نظام اسلامی تعلیمات پر استوار ہوتا لیکن عملی صورت حال بالکل مختلف ہے ۔ دنیا کے ہر چوتھے شخص کے مسلمان ہونے کے باوجود تقریباً تمام ہی مسلمان ریاستوں میں خدائی ہدایت سے آزاد مغربی نظام حیات نافذ ہے جبکہ دوسری طرف آئے دن مغربی دنیا کے ممتاز افراد کے قبول اسلام کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ سال رواں ہی میں اسلام کے بڑے ناقد کی عالمی شہرت رکھنے والے امریکی مسیحی پادری ہلیرین ہیگی اور معروف امریکی اداکارہ لینڈ سی لوہان اور دیگر کئی ممتاز شخصیات کے قبول اسلام کی خبریں منظر عام پر آچکی ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی اسلام کے عملی شکل میں نافذ نہ ہونے کے باوجود قبول اسلام کا یہ سلسلہ بحیثیت نظام زندگی اسلام کے اپنے اوصاف و خصوصیات کی صداقت کی وجہ سے جاری ہے ۔ اس رجحان کی روک تھام ہی کیلئے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی خاطر قرآن پاک اور مقدس اسلامی شخصیات کی بے حرمتی کی سازشی کارروائیاں کی جاتی رہتی ہیں تاکہ جذبات کے تقاضے کی بناء پر مسلمان پرُتشدد احتجاج کریں اور یوں اس پروپیگنڈے کی راہ ہموار ہو کہ اسلام تو دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے۔تاہم فرمان ربانی کا لازمی تقاضا ہے کہ جس حق کو خاتم الانبیاء نے ہم تک پہنچایا ہے اسے اپنے قول و عمل سے ہم دنیا کے تمام لوگوں تک پہنچائیں۔ اس گواہی کی حقیقی صورت اس کے سوا کوئی نہیں کہ مغرب کی بے خدا تہذیب کی تباہ کاریوں کی بھرپور نشان دہی کرتے ہوئے مسلمان مفکراور محقق اسلام کے نظام عدل و رحمت کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور کم از کم کسی ایک مسلم ملک میں مکمل اسلامی نظام قائم کرکے دنیا کو اسلام کی برکتوں اور رحمتوں کا عملی مشاہدہ کرنے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ دنیا میں وہی نظریہ غالب ہوتا ہے جو علم و فکر کے میدان میں دوسرے نظریات پر اپنی برتری ثابت کردے۔ پاکستان کا قیام اسی مقصد کیلئے عمل میں آیا تھا اور ہمارا موجودہ متفقہ آئین اس حقیقت کا یقینی ثبوت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس آئین کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کرکے دنیا کے سامنے حق کی وہ گواہی پیش کی جائے جو بحیثیت امت محمدیؐ ہمارا فرض منصبی ہے۔