26 جولائی کو اُسی روزنامے نے یہ خبر شائع کی کہ علامہ اقبال صدارتی خطبہ تیار کر رہے ہیں۔ اِس خبر کے چھپتے ہی محمد یعقوب کا ایک خط تمام اردو روزناموں میں شائع ہوا کہ علامہ اقبال نے سالانہ اجلاس کی صدارت قبول فرما لی ہے، اِس لئے تمام سیاسی عناصر سے اجلاس میں شرکت کی اپیل کی جاتی ہے تاکہ مسلمانوں کی طرف سے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔
لکھنؤ میں سالانہ اجلاس کی تیاریاں زور پکڑتی گئیں۔ منشی ابراہیم علی، جو لکھنؤ کے معروف مسلم لیگی لیڈر تھے، اُنہوں نے اطلاع دی کہ استقبالیہ کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ اِسی دوران ہیڈآفس کو اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی اطلاعات موصول ہونے لگیں جو اِس امر پر زور دَے رہے تھے کہ سالانہ اجلاس میں ایک ٹھوس پروگرام ترتیب دیا جائے۔ مرکزی دفتر 28دنوں کیلئے لکھنؤ منتقل ہو گیا جہاں استقبالیہ کمیٹی نے سالانہ اجلاس کیلئےگنگا پرشاد میموریل ہال مخصوص کرا لیا تھا۔ شہر میں بڑے بڑے پوسٹر لگ چکے تھے اور ہینڈبل تقسیم کئے جا رہے تھے۔ اب ایک طرف مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی تیاریاں پورے عروج پر تھیں اور دُوسری طرف انڈین نیشنل کانگریس اُسے ناکام بنانے کیلئے نیشنلسٹ مسلمانوں کو شہ دے رہی تھی۔ علامہ اقبال نے یکم اگست کو محمد یعقوب کے نام خط لکھا کہ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ کانگریس طرح طرح کی سازشیں کر رہی ہے جبکہ ہندوستان کے مسلمانوں کا مفاد اِس میں ہے کہ لکھنؤ کا اجلاس پُرامن ہو۔ اِس مقصد کیلئے ہر قسم کی شرارت کی روک تھام کیلئے انتہائی معقول انتظامات ہونے چاہئیں۔ حضرت علامہ نے یہ بھی تجویز کیا کہ اگر مناسب ہو، تو اجلاس کا مقام دہلی تبدیل کر لیا جائے اور تاریخ اگست کے بجائے ستمبر میں رکھ لی جائے کہ اُس وقت موسم نسبتاً بہتر ہو گا۔ 4؍اگست کو اُن کا ایک اور خط موصول ہوا جس میں سالانہ اجلاس کیلئے اکتوبر کا مہینہ اِس بنا پر تجویز کیا گیا تھا کیونکہ ستمبر میں صوبائی اور مرکزی کونسلوں کے انتخابات ہونے والے تھے۔ 4؍اگست ہی کو اُن کا ایک خط شمس الحسن کو بھی وصول ہوا جس میں یہ تاکید بھی کی گئی تھی کہ اُنہیں کوئی استقبالیہ دیا جائے نہ اُن کی آمد کا بہت چرچا کیا جائے۔
لکھنؤ میں مسلم لیگ کی لیڈرشپ بھی نیشنلسٹ مسلمانوں کی طرف سے خطرہ محسوس کر رہی تھی، مگر اُس کے حوصلے بلند تھے۔ شمس الحسن نے 6؍اگست کو محمد یعقوب کے نام خط لکھا کہ اُنہیں محمد یوسف اور فیروز خاں نون کی طرف سے ٹیلی گرام آئے ہیں کہ سالانہ اجلاس ملتوی کر دیا جائے، لیکن مَیں اِس تجویز کا مخالف ہوں کیونکہ دو ہزار دَعوت نامے بھیجے جا چکے ہیں اور اَخبارات میں بڑے پیمانے پر مہم چل رہی ہے۔ میری رائے میں اجلاس کو مؤخر کرنے سے مسلم لیگ کی شہرت کو نقصان پہنچے گا۔ اِنہی دنوں قائدِاعظم کا ٹیلی گرام آیا کہ مَیں سالانہ اجلاس میں شرکت نہیں کر سکوں گا، اِس لئےوہ ملتوی کر دیا جائے، چنانچہ تمام تر تیاریوں کے باوجود لکھنؤ کا اجلاس وقتی طور پر التوا کا شکار ہو گیا۔سالانہ اجلاس کے اچانک التوا سے مسلم لیگ کی مقامی قیادت شدید غم و غصّے کا اظہار کرتی رہی، تاہم اُس نے اکتوبر میں اجلاس کو بہتر انداز میں کامیاب بنانے کیلئے اپنا کام جاری رکھا۔ 3نومبر کو محمد یعقوب نے شمس الحسن پر واضح کیا کہ علامہ اقبال جلد سے جلد سالانہ اجلاس بلانے پر زور دَے رہے ہیں، جبکہ اِس کا انعقاد کرسمس سے پہلے ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کرسمس کی چھٹیوں میں اپنا سالانہ اجلاس بنارس میں منعقد کر رہی ہے، اِس لئے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کا انعقاد بھی اِسی شہر ہی میں مناسب رہے گا، چنانچہ اُنہوں نے شمس الحسن کو بنارس جانےاور وَہاں سے کسی صاحبِ ثروت سے میزبانی کی پیش کش حاصل کرنے کا مشورہ دِیا۔
بنارس ہندؤں کا مقدس مقام تھا، لیکن محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں شرکت کے لئے وہاں بڑی تعداد میں مسلم اسکالر پہنچ رہے تھے۔ اُن کی میزبانی کا بار بابو خلیل احمد اُٹھا رہے تھے جو اَچھی مالی حیثیت کے مالک تھے۔ اُنہیں شمس الحسن نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی میزبانی پر آمادہ کر لیا۔ علامہ اقبال بھی اِس تجویز سے متفق نظر آئے، چنانچہ سالانہ اجلاس کا مقام لکھنؤ سے بنارس تبدیل ہو گیا جہاں مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے طفیل احمد اپنی قیادت کو اُن دشواریوں سے مطلع کرتے رہے جو اِنتظامات کے سلسلے میں پیش آ رہی تھیں۔ کرسیاں اور خیمے کرائے پر لینے کے لئے مسلم لیگ کے پاس وسائل نہیں تھے۔ ہال جو دستیاب تھا، اُس میں پچاس ساٹھ حاضرین ہی سما سکتے تھے جبکہ سالانہ اجلاس میں سینکڑوں کی شرکت متوقع تھی۔ عین اُسی وقت الہ آباد سے مسلم لیگ کے کونسلر محمد حسین نے الہ آباد میں سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی دعوت دی جسے منتظمین نے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے بروقت غیبی امداد سمجھ کر فوراً قبول کر لیا۔ مقام تبدیل کرنے کی اطلاع فوری طور پر علامہ اقبال کو دی گئی۔ روزنامہ ’انقلاب‘ نے 16 دسمبر کی اشاعت میں مسلم لیگ کے اِس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور یہ اُمید ظاہر کی کہ الہ آباد کے سالانہ اجلاس میں برِصغیر کے مسلمان اپنے گھمبیر مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لئے علامہ اقبال کی رہنمائی سے بھرپور اِستفادہ کر سکیں گے۔ الہ آباد ہندوستان کا قدیم شہر دریائے جمنا اور گنگا کے سنگم پر واقع تھا۔ (جاری ہے)
مزید خبریں
-
سب کی قسمت ایک سی ہوتی نہیںاِس لئے شاد، وہ ناشاد ہے کوئی آزادی میں ہے قیدی یہاں اور کوئی قید میں آزاد ہے
-
مستقبل ……مبشر علی زیدیڈاکٹر صاحب، پیٹ میں درد ہے، میں بلبلایا۔پیٹ کا درد، ڈاکٹر نے گوگل کیا۔یہ پتے کا درد...
-
ہالینڈ کے ایک جریدے نے ملائیشیا کی ایک کمپنی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملائیشیا میں ایک ایسی مشین ایجاد کی گئی ہے...
-
مجھ جیسے پاکستانیوں کو خبریں سننے اور پڑھنے کی ایسی لت لگی ہوئی ہے کہ اگر ایک شام بھی کہیں باہر گزرے اور واپس...
-
اوورسیز پاکستانیز کنونشن سے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اہم خطاب کئے۔ وزیر اعظم...
-
’’اسرائیلی وزیراعظم جنگی مجرم ہے اس کیخلاف عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمہ چلایا جائے۔‘‘ یہ الفاظ قائد جمعیت...
-
اس وقت خواب جیسے سفر کا احوال میرے قلم کی نوک سے گررہا ہے -یہ ’’خواب سفر ‘‘گزشتہ چار دن میرے پائوں میں چکر کی...
-
اگر سندھ طاس معاہدے کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس معاہدے میں بھی عالمی قوانین کی خلاف...