مجھے پتوں پر،پگڈنڈی پر کھلاہوا پھول،کسی سیاہ فریم پر روشنی کی لکیر،کوئی دعا کیلئے اٹھے ہوئے ہاتھ دیکھ کر ڈاکٹر امجد ثاقب یاد آجاتے ہیں۔شاید اس لئے کہ میں نے اپنے طور پرانہیں جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میرے نزدیک امجد ثاقب صرف ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک تنظیم کا نام ہے۔غربت کے خاتمے کیلئے ایک دھڑکتے ہوئے دل کانام ہے۔ معاشرت میں کمزوروں کے حقوق کی ایک مسلسل جدوجہد کانام ہے۔فلاح و بہبودکے گنبد میں ایک توانا گونج کانام ہے ،خلقِ خداکی خدمت کی تڑپ کانام ہے۔یہ تنظیم یہ دھڑکتا ہوادل، یہ مسلسل اورمستقل جدوجہد،یہ توانا آواز،یہ تڑپ یقیناًہم سب کیلئے ایک اعزاز ہے۔اسی کے نفشِ کف پا پر چلتے ہوئے ہماری آئندہ نسلیں منزلوں سے ہمکنار ہوسکتی ہیں۔اس وقت وہ مجھے اس لئے یاد آئے کہ جب کوئی درست آدمی کسی درست جگہ پر تعینات کیا جاتا ہے تو بجھے ہوئے دل کی راکھ میں امید کی چنگاری جاگ اٹھتی ہے۔ڈاکٹر امجد ثاقب کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا سربراہ بنایا گیا تو دل بھر آیا، یہ سوچ کرکہ کاش اسی طرح ہر عہدے پر اس کی اہلیت کےمطابق لوگ فائزہوتے۔میں یقین رکھتا ہوں کہ انہیں چند سال کام کرنے کا موقع مل گیا تو یہ غربت کے خاتمے کا یہ پروگرام ملک بھر میں مثالی پروگرام ہوگامگر مہنگائی کے سبب جس تیزی سےلوگ غربت کی لکیر کے نیچے جارہے ہیں اس کا سدباب کون کرے گا۔انہوں نے چارج سنبھالنے کے بعد جو پہلی بات یہ کی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ سرکاری اور نجی شعبے کے اشتراک سے مستحقین کو غربت سے باہر نکالنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ذاتی طور پرمجھ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ سے نوے لاکھ گھرانوں کو مدد مل رہی ہے۔میں کوشش کروں گا کہ یہ رقم لوگوں کوشفاف انداز میں ملے، رقم میں اضافہ ہو اور جو لوگ یہ امداد برسوں سے لے رہے ہیں انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع مل سکے تاکہ کوئی غریب جب غربت کی لکیر تک پہنچتا ہے تووہ شخص بھی اس کی مدد میں شامل ہو سکے۔اصل چیز شفافیت ہے اور حقدار تک اس کا حق پہنچانا ہے۔اس حوالے سے مجھے اللہ تعالی نےجو بھی صلاحیت دی ہے اس کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے بہتری کی پوری کوشش کروں گا اس کے علاوہ غریب فیملز کے بچوں کیلئے تعلیم پر بھی توجہ دینی ہے۔اگر ملک میں ہر بچہ اسکول چلا جائے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔
بے شک وہ تعلیم کے حوالے سے نجی شعبےکے اشتراک سے ایجوکیشن سیکٹر میںکھڑکی سے کارپٹ پر گرتی ہوئی دھوپ کی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ مثال طور پر میں نے فریضہ ایجوکیشنل نیٹ ورک کے طریقہ کار کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔یہ نیٹ ورک پڑھی لکھی خواتین کو اپنے گھروں کے قریب فریضہ کی مدد سےا سکول کھولنے کی ترغیب دیتا ہے اور انہیں باوقار روزگار فراہم کرتا ہے۔انہیں تمام تعلیمی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ان کے بہت سےا سکول کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں اگر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام فریضہ کے ساتھ یا اس جیسے کسی اور نیٹ ورک کے ساتھ اسی طرح اسکول کھولنے میں مدد فراہم کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے جو یہ خواب دیکھا کہ کوئی بچہ اسکول سے باہر نہ ہو،اسے تعبیر مل سکتی ہے۔اس کے علاوہ اخوت کی طرح لوگوں کو چھوٹے کاروبار کیلئے قرض دینے کا پروگرام تربیت دیتا ہے تو یہ غربت کے خاتمے کی طرف ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔ اگر ڈاکٹر امجد ثاقب کی سربراہی میں اخوت کی طرف سے دئیے گئے قرضوں کی سو فیصد واپسی ممکن ہے تو یہاں بھی ممکن ہے۔ڈاکٹر امجد ثاقب کو نوبل پرائز کیلئے نامزد کیا گیا۔انہیں گلوبل سمٹ کے موقع پرگلوبل مین آف دی ڈیکیڈ کا ایوارڈ دیا گیا۔انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز بھی مل چکا ہے۔وہ 1957ء میں پاکستان کے چھوٹے شہر کمالیہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1982ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور سے ایم بی بی ایس کیا اور جامعہ پنجاب سے پبلک ایڈمنسٹریشن (ایم پی اے) میں ماسٹر کی ڈگری مکمل کی۔ انہوں نے 1995ء میں امریکی یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی سے ایک ہیوبرٹ ایچ ہمفری فیلوشپ بھی حاصل کی۔ 1985ء میں انہوں نے ڈی ایم جی میں سول سروس میں شمولیت اختیار کی اور مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے، 1998ء میں بطور جی ایم پنجاب رورل سپورٹ پروگرام میں کام کرنا شروع کیا اور اگلے سات سال تک وہاں خدمات انجام دیں۔ کئی سال مختلف عہدوں پر تعینات رہنے کے بعد 2003ء میں انہوں نے سول سروس سے استعفیٰ دے دیا اور اخوت کے نام سے عوامی فلاح و بہبود اور معاشرتی ترقی کے لئے کام کرنے لگے۔کسی بیوروکریٹ کا فلاحی کاموں کیلئے اپنی ملازمت چھوڑ دینا بہت مشکل بات ہے۔اس سے پہلے شاید ہی کوئی ایسی مثال موجود ہو،سعادت حسن منٹو نے شخصیت نگاروں سے متعلق لکھا تھا کہ یہ لوگ تو لوگوں کو لانڈری سے دھلوا کر لاتے ہیں۔میں جب بھی کسی شخصیت پر کالم لکھنے لگتا ہوں تو مجھے منٹو کا یہ جملہ یاد آجاتا ہے اورمیں سوچتا ہوں کہ میں بھی وہی کچھ کررہا ہوں جو ماضی میں میرے بزرگ کیا کرتے تھے۔یقین کیجئے اس نقطہ ِ نظر سے میں نے اپنی اس تحریر پربھی ایک نظر ڈالی ہے۔ خدا گواہ کوئی بات غلط نہیں لکھی۔کسی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا۔یقین کیجئے ڈاکٹر امجد ثاقب اس سے بہتر الفاظ کے حقدار ہیں۔اللہ تعالی انہیں اپنے مقاصد میں کامیابیوں اور فیروزمندیوں سے ہمکنار کرے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
مزید خبریں
-
سب کی قسمت ایک سی ہوتی نہیںاِس لئے شاد، وہ ناشاد ہے کوئی آزادی میں ہے قیدی یہاں اور کوئی قید میں آزاد ہے
-
مستقبل ……مبشر علی زیدیڈاکٹر صاحب، پیٹ میں درد ہے، میں بلبلایا۔پیٹ کا درد، ڈاکٹر نے گوگل کیا۔یہ پتے کا درد...
-
ہالینڈ کے ایک جریدے نے ملائیشیا کی ایک کمپنی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملائیشیا میں ایک ایسی مشین ایجاد کی گئی ہے...
-
مجھ جیسے پاکستانیوں کو خبریں سننے اور پڑھنے کی ایسی لت لگی ہوئی ہے کہ اگر ایک شام بھی کہیں باہر گزرے اور واپس...
-
اوورسیز پاکستانیز کنونشن سے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اہم خطاب کئے۔ وزیر اعظم...
-
’’اسرائیلی وزیراعظم جنگی مجرم ہے اس کیخلاف عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمہ چلایا جائے۔‘‘ یہ الفاظ قائد جمعیت...
-
اس وقت خواب جیسے سفر کا احوال میرے قلم کی نوک سے گررہا ہے -یہ ’’خواب سفر ‘‘گزشتہ چار دن میرے پائوں میں چکر کی...
-
اگر سندھ طاس معاہدے کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس معاہدے میں بھی عالمی قوانین کی خلاف...