آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش ہے اور مجھے وہ دن یاد ہے جب میں عمرے کے دوران حضورؐ کے روضہ اقدس پر حاضر ہوا تھا۔
عمرے کے لئے روانہ ہوتے ہوئے میرے دوست احمد حسن حامد کی نوجوان بیٹی کے بارے میں، میں نے سوچا تھا کہ خانہ کعبہ نظر آتے ہی میں اس بچی کے لئے دعا کروں گا۔ لاہور سے کراچی کہ میری فلائٹ وہیں سے تھی، پہنچا تو اپنی بھانجی شاہدہ سے ملنے اس کے گھر گیا، وہ تکلیف سے تڑپ رہی تھی، اس کا بازو سوجا ہوا تھا اور ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ یہ بازو کاٹنا پڑے گا، میں ایک دفعہ پھر افسردہ ہوگیا۔ جب جدے سے مکہ معظمہ پہنچا تو میں نے خانہ کعبہ تک پہنچنے سے پہلے اپنی آنکھیں بند کرلیں کہ سنا تھا خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا کی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے، چنانچہ قریب پہنچ کر میں نے آنکھیں کھولیں، دعا کے لئے میرے لبوں میں جنبش آئی اور دل سے اپنے دوست کی بیٹی اور اپنی بھانجی کے لئے دعا نکلی، میں اس وقت بہت جذباتی ہوگیاتھا اور خدا سے گڑ گڑا کر دعا مانگ رہاتھا اور کہہ رہا تھا ،باری تعالیٰ میں تیرے در پر آیا ہوں اپنے لئے کچھ نہیں ما نگ رہامیں، میری جھولی میں ان دعائوں کی قبولیت کی بھیک ڈال دے، جس کا وعدہ کرکے میں آیا ہوں۔ جب میں عمرے سے واپس کراچی اور پھر لاہور پہنچا تو میں نے دیکھا کہ میری بھانجی خوش و خرم بیٹھی ہے۔ میں نے پوچھا یہ معجزہ کیسے ہوا، اس نے بتایا کہ ایک دن بیٹھےبیٹھے اس کے بازو پر ایک پھوڑا سا بنا اور اس کے بعد اس میں سے فاسد مواد بہنا شروع ہوااور اتنا زیادہ کہ ایک بالٹی بھر گئی اور پورے گھر میں شدید بدبو پھیل گئی۔ اگلے دن ایسے لگا جیسے کبھی کوئی تکلیف ہی نہیں تھی۔اس کے بعد لاہور آیا اور احمد حسن حامد سے بیٹی کا احوال پوچھا تو اس نے بتایا کہ پہلے اسے کچھ نظر نہیں آتا تھا، اب اس کے سامنے کوئی آئے تو اس کا ہلکا سا خاکہ اس کی آنکھوں میں ابھرتا ہے اور وہ اسے پہچان لیتی ہے۔ بے شک میرا اللہ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعا کو شرف قبولیت ضرور بخشتاہے۔
مکہ معظمہ سے میں مدینہ پہنچا اور پھر مجھ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جسے لفظوں میں بیان کرنا میرے بس میں نہیں، ان دنوں بہت زیادہ رش نہیں تھا،چنانچہ میں بہت دیر تک حضورؐ کے روضہ کے سامنے کھڑا رہا، روتے روتے میری قمیض بھیگ گئی تھی اور مجھے حرف دعا یاد نہیں تھا۔ میں رحمت اللعالمینؐ کے در پر آیا تھا اور مجھے لگتا تھا، بن مانگے وہ سب کچھ مل جائے گا جس کی میں نے کبھی خواہش نہیں کی اور ایسے ہی ہوا، مجھے وہ کچھ ملا جو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ حضورؐ کے دامن میں ان کے یارِ غار ابوبکر صدیقؓ محو خواب تھے، ان کے برابر میں حضرت عمر فاروقؓ استراحت فرما رہے تھے، جن کے ایمان لانے کی دعا رسول اللہؐ نے کی تھی، میں نے وہاں فاتحہ پڑھی اور دعا مانگی مجھے ایسے لگا جیسے قبولیت کی سندمجھے مل گئی ہے۔
مدینے میں گزرے ہوئے میرے دن ایک لحاظ سے مراقبے میں گزرے، میں خیال کے دھندلکوں میں ان گلیوں میں گھوم رہا تھا جہاں حضورؐ کے قدم مبارک پڑے تھے۔ پھر ایک دن میں ان دھندلے خیالوں سے نکلا اور ایک مقامی پاکستانی دوست کو ساتھ لے کر ان گلیوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ ظاہر ہے ان میں تبدیلی آگئی تھی۔مگر ان کی قدامت کا تاثر پوری طرح قائم تھا، چھوٹے چھوٹے مکان اور ان میں سے اکثر زمین میں دھنسے ہوئے تھے، چنانچہ ان میں داخل ہونے کے لئے اس گہرائی میں چند اسٹیپ سیڑھیاں بنائی گئی تھیں۔ مجھ پر ایک وارفتگی سی طاری تھی، مجھے حضورؐ اور ان کے اصحابؓ کے قدموں کی چاپ ان گلیوں میں سنائی دے رہی تھی۔ بہت سے روشن چہرے مجھے دکھائی دے رہے تھے اور ان کی روشنی کوئی عام روشنی نہیں بلکہ عرشِ معلی سے اترتی محسوس ہو رہی تھی، مجھے مدینہ میں قیام کے دوران جنت البقیع میں جانے کا موقع بھی ملا۔ مسجد نبویؐ میں نماز کے دوران ایک اعلان سنائی دیا کہ ایک مرحوم کی نماز جنازہ ادا کرکے جائیں، چنانچہ نمازِ جنازہ کے بعد میںنے جنازے کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیا، اللہ مجھ سے اس روز بہت راضی تھا کہ اس جنازے کے ساتھ چلتے چلتے میں جنت البقیع پہنچ گیا، یہاں حضورؐ کے سینکڑوں جان نثار مدفون تھے، مجھے لگا میرے خون میں ان کی برکات اور تجلی کا ظہور سرایت کر رہا ہے، یہاں تو حضورؐ کی سب سے پیاری بیٹی فاطمہؓ بھی محو خواب تھیں، ان کے علاوہ امام حسنؓ جو دوشِ محمدؐ کے سوار تھے، امام باقرؓ، امام زین العابدینؓ اور اللہ جانے کیسی کیسی مقدس ہستیوں کا نور یہاں فضائوں میں پھیلا ہواتھا، نجدی حکومت نے یہ سب قبور توحید کے نام پر مسمار کر دی تھیں اور میرے والدمولیٰنابہاء الحق قاسمیؒ نے اس سانحہ پر اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ یہ توحید نہیں توحیدکا ہیضہ ہے۔ اب ان قبور مبارک پر نشانی کیلئے ایک ایک اینٹ رکھ دی گئی ہے اور گائیڈ آپ کو بتاتا ہے کہ یہاں کونسی مقدس ہستی مدفون ہے۔
میری خوشی قسمتی کہ مولیٰناا عبدالعزیز مشرقی، جو اب وفات پا چکے ہیں ،نے مجھے مسجد نبوی کی سیر کرائی۔ ترک بہت بڑے عاشق رسول ﷺتھے۔انہوں نے اپنے دور حکومت میںان تمام حجروں اور دیگر مقامات کی نشاندہی کے لئے وہاں بہت خوبصورت ستون بنا دیئے تھے۔مولیٰنا مجھے ساتھ لے کر ایک ایک ستون کے بارے میں بتاتے رہے کہ یہاں کیا تھا، میری آنکھیں یہاںبھی بھیگنا شروع ہوگئیں۔
میں مدینہ سے چلا آیا مگر آج بھی مجھ پہ کچھ ایسے لمحات طاری ہوتے ہیں کہ میں حضورؐ کے روضے کی جالیوں کے سائے میں کھڑا ہوں اور بہت دیر تک ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہوں، شاید یہی کیفیت مجھے اس کے بعد تین بار حضورؐ کے قدموں میں لے گئی۔ ابھی مجھے کئی بار اور بھی جانا ہے۔
مزید خبریں
-
سب کی قسمت ایک سی ہوتی نہیںاِس لئے شاد، وہ ناشاد ہے کوئی آزادی میں ہے قیدی یہاں اور کوئی قید میں آزاد ہے
-
مستقبل ……مبشر علی زیدیڈاکٹر صاحب، پیٹ میں درد ہے، میں بلبلایا۔پیٹ کا درد، ڈاکٹر نے گوگل کیا۔یہ پتے کا درد...
-
ہالینڈ کے ایک جریدے نے ملائیشیا کی ایک کمپنی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملائیشیا میں ایک ایسی مشین ایجاد کی گئی ہے...
-
مجھ جیسے پاکستانیوں کو خبریں سننے اور پڑھنے کی ایسی لت لگی ہوئی ہے کہ اگر ایک شام بھی کہیں باہر گزرے اور واپس...
-
اوورسیز پاکستانیز کنونشن سے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اہم خطاب کئے۔ وزیر اعظم...
-
’’اسرائیلی وزیراعظم جنگی مجرم ہے اس کیخلاف عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمہ چلایا جائے۔‘‘ یہ الفاظ قائد جمعیت...
-
اس وقت خواب جیسے سفر کا احوال میرے قلم کی نوک سے گررہا ہے -یہ ’’خواب سفر ‘‘گزشتہ چار دن میرے پائوں میں چکر کی...
-
اگر سندھ طاس معاہدے کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس معاہدے میں بھی عالمی قوانین کی خلاف...