لندن کے مختلف علاقوں میں کچھ تقریبات میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ لندن بنیادی طور پر پانچ حصوں ایسٹ، ویسٹ، نارتھ، ساؤتھ اور سینٹرل لندن پر مشتمل ہے۔ لندن کی بے ہنگم اور سست رو ٹریفک کو دیکھ کر کئی مرتبہ بیجنگ اور شنگھائی یاد آئے کہ چینیوں نے کس طرح بڑے شہروں میں ٹریفک کا شاندار نظام قائم کر رکھا ہے مگر گورے یہ کام نہیں کر سکے۔ لندن میں ایک سے دوسری جگہ جانا ہو تو گھنٹہ ڈیڑھ لگ جاتا ہے، کبھی دو سے ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں، ایک ہی شہر میں اتنا وقت ضائع ہونے پر حیرت ہوتی ہے۔ لندن کے لوگ سماجی خوشیوںسے دور مشینوں کی طرح رہتے ہیں۔ یہ لوگ کام کرتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں اور سوتے ہیں، یہی ان کی زندگی ہے۔ مشینوں کی طرح چلتی ہوئی زندگی میں خوشی کے لمحات بہت کم ہیں۔ مادہ پرستی کے کھیل میں لوگوں کی بھاگ دوڑ دولت کیلئے ہے۔ یہاں کے نظام نے انہیں جکڑ رکھا ہے۔ لوگ اپنی مرضی سے گھر نہیں بنا سکتے، گھر تو کیا دیوار کھڑی نہیں کر سکتے، دیوار تو دور کی بات ہے گارڈن اور گیراج بنانے کیلئے پورے محلے سے پوچھنا پڑتا ہے۔ اپنے گھر میں کوئی چیز لگانی ہو تو کونسل سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ کونسل دس بارہ گھروں سے پوچھتی ہے۔ کسی نے ایک اینٹ پر اعتراض کر دیا تو بس پھر وہ ایک اینٹ نہیں لگ سکتی۔ یہ لوگ گاڑیوں کیلئےپارکنگ ڈھونڈتے تھک جاتے ہیں، انہیں جرمانے کا ڈر لگا رہتا ہے۔ لندن شہر کی اکثر سڑکوں پر بیس میل سے زیادہ کی رفتار پر جرمانہ ہو جاتا ہے۔ ٹیکسوں اور جرمانوں کےغلام، عجیب سہمی اور ڈری ہوئی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی زندگیاں خوبصورتی، احساس اور محبت سے خالی ہیں۔ اگر یہاں کے گھروں کا جائزہ لیں تو چھوٹے گھروں میں اتنے چھوٹے کمرے ہیں کہ ہمارے واش روم ان سے بڑے ہیں۔ یہ سماجی غلام گھروں کے دروازوں پر جوتے ایسے اتارتے ہیں جیسے آگے کوئی مقدس مقام آگیا ہو۔ یہ لوگ جوتوں کا ایک ہی جوڑا واش روم کیلئے استعمال کرتے ہیں، ان کو یہ پتہ نہیں کہ ایک شخص کے پہنے ہوئے جوتے جب کوئی دوسرا استعمال کرتا ہے تو جراثیم منتقل ہو جاتے ہیں۔ سگریٹ پینے والوں کیلئے یہاں کی زندگی کسی آزمائش سے کم نہیں۔ گھروں میں سگریٹ پی نہیں سکتے، پب میں سگریٹ پر پابندی ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ موسم کی جتنی بھی شدت ہو سگریٹ باہر کھڑے ہو کر پینا پڑتا ہے۔سگریٹ بجھا کر پھینکنا بھی جاں گسل مرحلہ ہے۔ یہاں کا کوئی غلام باسی آپ کے قریب کھڑا ہو تو آپ سے کہے گا، یہاں نہ بجھائیں وہاں بجھائیں، یہاں ڈیڑھ سو پاؤنڈ جرمانہ ہو جائے گا بلکہ بجھا کر فوراً کوڑا دان میں ڈال دیں۔ میں نے یہاں کے باشندوں سے پوچھا کہ یہ سارا کھیل کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ سب کچھ صفائی کیلئے ہے۔ مجھے ان کے اس جملے پر بھی حیرت ہوئی چونکہ میں نے ایران کے شہر مشہد کو لندن سے کہیں زیادہ صاف ستھرا پایا۔ چین اور روس کے کئی شہر شیشے جیسے نظر آتے ہیں۔ اصفہان کو تو فرانسیسی نصف جہان کہتے ہیں۔ صفائی کے نام پر زندگی کو مشکل ترین بنانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ صفائی سگریٹ سے نہیں آتی، صفائی کا عمل دلوں سے شروع ہوتا ہے، دل، جسموں اور معاشروں کو صاف ستھرا اور خوبصورت بناتے ہیں۔ برطانیہ کے مقابلے میں پاکستان کی سماجی زندگی ہزار درجے بہتر ہے۔ آپ اس ہزار کو کروڑوں میں بدل سکتے ہیں مگر اس کیلئے نظام کو بدلنا ہو گا۔ پاکستان میں مزیدار پھل ہیں، پہاڑ، دریا، میدان، صحرا، لہلہاتے کھیت، باغات، جھیلیں، وادیاں، ساحل سب کچھ ہے۔ پاکستان میں سماجی زندگی انسانوں کو مشین نہیں بناتی بلکہ زندگی کے حسن کو نکھارتی ہے۔ پاکستان میں صرف نظام کی خرابی ہے۔ پاکستان کی سماجی زندگی میں گپ شپ اور گیت ہیں، زندگی میں چمک اور چہک ہے، سماجی رسم و رواج میں رونقیں ہیں۔ بس پاکستان میں ظلم و نا انصافی کے نظام کا خاتمہ ہو جائے تو سماجی اعتبار سے یہاں سے بہتر کہیں کی زندگی نہیں۔ پاکستانی لوگ بھی نظام بدلنے کے خواہاں ہیں مگر ان کا ہیرو مشکلات کے پل سے گزر رہا ہے۔ پاکستانی لوگ اس کے ہم آواز بن چکے ہیں۔ میں نے فلموں میں بھی دیکھا ہے کہ پوری فلم میں ولن موجیں کرتے ہیں اور ہیرو مشکلات میں رہتا ہے مگر آخری لمحات میں فتح ہیرو کے قدم چومتی ہے۔ پاکستان میں وہ آخری لمحات آنے والے ہیں کیونکہ پاکستان میں ولن بہت ہیں مگر ہیرو ایک ہے۔ پاکستان میں نظام بہتر ہو گیا تو وہاں کی زندگی پوری دنیا کیلئےقابل رشک بن جائے گی۔ برطانیہ کیا پورا مغرب بھی ایسی زندگی کا تصور نہیں کر سکے گا ۔ میں لندن میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اقبال نے برسوں پہلے کہا تھا کہ
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
مزید خبریں
-
سب کی قسمت ایک سی ہوتی نہیںاِس لئے شاد، وہ ناشاد ہے کوئی آزادی میں ہے قیدی یہاں اور کوئی قید میں آزاد ہے
-
مستقبل ……مبشر علی زیدیڈاکٹر صاحب، پیٹ میں درد ہے، میں بلبلایا۔پیٹ کا درد، ڈاکٹر نے گوگل کیا۔یہ پتے کا درد...
-
ہالینڈ کے ایک جریدے نے ملائیشیا کی ایک کمپنی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملائیشیا میں ایک ایسی مشین ایجاد کی گئی ہے...
-
مجھ جیسے پاکستانیوں کو خبریں سننے اور پڑھنے کی ایسی لت لگی ہوئی ہے کہ اگر ایک شام بھی کہیں باہر گزرے اور واپس...
-
اوورسیز پاکستانیز کنونشن سے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اہم خطاب کئے۔ وزیر اعظم...
-
’’اسرائیلی وزیراعظم جنگی مجرم ہے اس کیخلاف عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمہ چلایا جائے۔‘‘ یہ الفاظ قائد جمعیت...
-
اس وقت خواب جیسے سفر کا احوال میرے قلم کی نوک سے گررہا ہے -یہ ’’خواب سفر ‘‘گزشتہ چار دن میرے پائوں میں چکر کی...
-
اگر سندھ طاس معاہدے کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس معاہدے میں بھی عالمی قوانین کی خلاف...