غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی؟

اداریہ
01 اکتوبر ، 2023

اخباری رپورٹوں کے مطابق حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کو غیر قانونی تارکین وطن کی آماجگاہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ افغان باشندوں سمیت تمام غیر قانونی تارکین وطن کو واپسی کے لئے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دی جائے گی جس کے بعد ملک گیر کریک ڈائون ہو گا اور قانون نافذکرنے والے ادارے غیر قانونی مقیم افراد کو ڈی پورٹ کریں گے جن میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے۔ پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو انسانی بنیادوں پر پناہ فراہم کی لیکن کسی حکومت نے اس حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ افغانستان سے جو پناہ گزین آئے ہیں یا آ رہے ہیں ان میں تاجک، ہزارہ، منگول، ازبک، وسط ایشیائی ریاستوں کے باشندے اور شمالی افریقہ کے لوگ شامل ہیں جو افغانستان کے باشندے بن کر یہاں آتے ہیں۔ ملک میں گیارہ لاکھ افغان شہری غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ بیشتر مہاجرین نے اسلام آباد سمیت بڑے شہروں میں کاروبار کھول لئے ہیں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ غیر قانونی پناہ گزینوں کی آمد کے بعد ملک میں ہتھیاروں، منشیات کی بھرمار، قتل ، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی کی وارداتوں میں غیر معمولی اضافہ اور پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا جواب تک جاری ہے۔یہ لوگ خود کش دھماکوں،ڈالر کے غیر قانونی کاروبار، سمگلنگ سمیت ریاست مخالف اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں جس سے افغان حکومت کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان دہائیوں سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا چلا آ رہا ہے۔ کچھ اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ اب بھی چالیس لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان میں موجود ہیں تا ہم سرکاری ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد کم ہے جن کے پاس مستند پناہ گزین کا کارڈ موجود ہے۔ حکومت کو غیر قانونی افغان مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف کریک ڈائون اور ان کی بے دخلی کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ اس حوالے سے ایک جامع پناہ گزین پالیسی بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔