انسان کو ایک سائنسی معجزے کی ضرورت ہے

یاسر پیر زادہ
01 اکتوبر ، 2023
ایک وقت آئے گا جب اِس زمین پر انسان کا وجود ختم ہوجائے گا۔شاید یہ وقت قیامت کے قریب آئے یا ممکن ہے قیامت سے پہلے ہی آ جائے کیونکہ قیامت توپوری کائنات کیلئے برپا ہوگی جبکہ زمین تو فقط کائنات کے سمندر میں ایک ذرہ ہے۔سو، اِس بات کا امکان موجود ہے کہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہم نسلِ انسانی کے خاتمےکوقیامت کے مقررہ وقت سے پہلے ہی یقینی بنا لیں ۔ دوسری طرف اگر ہم انسانی ترقی کی رفتارکو دیکھیں تو لگتا ہے کہ انسان اپنی نسل کو کسی نہ کسی سائنسی طریقے سے روکنے میں کامیاب ہوجائے گا۔آخر انسان نے گزشتہ تیس ہزار برس سے عقل و دانش کے بل بوتے پر اِس کرہ ارض پر اپنی حکمرانی قائم کر رکھی ہے اور دیگر چرند ،پرند اور درند کا جینا حرام کیاہوا ہے سو یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرتِ انسان اتنی آسانی سے ہار مان لے ۔شاید یہی سوچ کر انسان نے ناروے کے ایک دور افتادہ مقام پرزمین میں پیدا ہونے والی تمام اجناس کے بیجوں کو ذخیرہ کر رکھاہے تاکہ کسی ناگہانی آفت کے نتیجے میں اگر زمین سے زرعی اجناس اور اُن کے بیج ختم ہوجائیں تو انسان یہاں سے بیج حاصل کرکے دنیا میں خوراک کی فراہمی کو یقینی بنا سکے۔اسی طرح انسان نے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کا انتظام بھی کر رکھا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی سرپھرے سے اچانک ’بندوق‘ چل جائے اور پوری انسانی نسل ایک ہی ہلے میں ختم ہوجائے۔لیکن اِن تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود میرا اندازہ ہے کہ انسان کے چل چلاؤ کا وقت اب قریب ہے اور اب کوئی سائنسی معجزہ ہی اسے بچا سکتا ہے ۔ایسا کیوں کر ہوگا، یہ بات بعد میں کرتے ہیں، پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ انسان کے جانے کے بعد زمین کی حالت میں کیا تبدیلی آئے گی!
انٹرنیٹ پر بے شمار مضامین اور ویڈیوز موجود ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر آج زمین سے انسان کا وجود مِٹ جائے تو کیا ہوگا۔ سب سے پہلے تو تیل کے کارخانوں میں خرابی پیدا ہوجائے گی اور چونکہ اُن کاکوئی والی وارث نہیں ہوگا تو اُن میں آگ بھڑک اٹھے گی جسے بجھانے والا کوئی نہیں ہوگا۔پھر دنیا بھر کے زیر زمین ریلوے اسٹیشن بند ہوجائیں گے کیونکہ اُن میں نکاسی آب کا نظام ناکارہ ہوجائےگا جس کی وجہ سے وہاں سرنگوں میںپانی اُمڈ آئے گا، یہ سب کچھ فقط تین دن میں ہوجائے گا۔ایک ہفتے کے اندر اندر دنیا بھر میں ہنگامی حالت میں بجلی پیدا کرنے والے جنریٹر بھی بند ہوجائیں گے اور اِس دوران تیل کے کارخانوں میں لگنے والی آگ بجھ چکی ہوگی جس کے نتیجے میں زمین کئی صدیوں میں پہلی مرتبہ اندھیرے میں ڈوب جائے گی۔دس دن بعد ایٹمی پلانٹس کا خود کار حفاظت کا نظام بھی جواب دے جائے گا جس کے بعد پے درپے خوفناک دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوگاجس کے نتیجے میں زمین میں زہریلے مادے اورتابکاری کے اثرات پھیل جائیں گے ۔خیال رہے کہ پہلے ماہ میں ہونے والی تباہی کے نتائج تیزی سے سامنے آئیں گے مگر اُس کے بعد دھیرے دھیرے زمین کی ہیئت تبدیل ہوگی ۔انسان کے پالتو جانور سڑکوں اور گلیوں میں پھرتے ہوئے نظر آئیں گے اور جو قید میں ہوں گے وہ خوراک نہ ملنے کی وجہ سے مرجائیں گے۔اگلے دس بیس برسوں میں دریاؤں کا پانی شہروں میں آجائے گا، عمارتوں میں توڑ پھوڑ شروع ہوجائے گی اور تقریباً دو سو سال میں کئی شہروں میں فلک بوس عمارتیں گرنا شروع ہوجائیں گی۔دریاؤں کے کناروں پر آباد شہروں کی عمارتیں نسبتاً تیزی سے تباہ ہوں گی جبکہ دیہات میں تعمیر شدہ مکانات میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل قدرے سست ہوگا ، اُن مکانوں میں کیڑے مکوڑے اور آس پاس کےکھیتوں اور جنگلوں سے چوہے اور دیگر جانورآکربسیراکرلیںگے۔آہستہ آہستہ سمندری حیات کی بحالی شروع ہوجائے گی اور لگ بھگ ڈیڑھ سو برس میں ہمارے شہر بھی اپنی قدرتی حالت میں ویسے واپس آجائیں گے جیسے انسان کی آمدسے پہلے تھے ۔جنگلوں کا رقبہ بڑھ جائے گا اور پانچ سو برسوں میں جنگل اپنے جوبن پر ہوں گے۔ پچیس ہزار برسوں میں زمین پر شاید ہی کوئی شے ایسی باقی رہے گی جسے ہم اپنی نشانی قرار دے سکیں ما سوائے پلاسٹک کی چند چیزوں کےاور پلاسٹک کو ختم ہونے میںمزید ایک یا دو لاکھ برس لگیں گے ۔
یہاں تک لکھ کر مجھے احساس ہوا ہے کہ کہیں میں وہ بندہ تو نہیں جو ہر محلے میں ہوتا ہے اور صرف بری خبریں پہنچانے کا کام کرتا ہے بالکل ویسے جیسےہمارے پنجابی ڈراموں میں اکثر ایک جُگت لگائی جاتی ہے کہ ’اے تے او بندہ اےجنّے آکے قیامت دا اعلان کرنا اے۔‘(یہ وہ شخص ہے جس نے آکر قیامت کا اعلان کرنا ہے )۔ تفنن برطرف،میں نے شروع میں لکھا ہے کہ انسان کے زمین سے رُخصت ہونے کا وقت قریب آچکا ہےاور اِس کی وجہ انسان کا جدید طرز ِزندگی ہے جس نے زمین کورہنے کے قابل نہیں چھوڑا ۔صرف گزشتہ تین ماہ میں دنیا کے بڑے ممالک میں جس قسم کے سیلاب آئے ہیں اور انہوں نے جس طرح کی تباہی مچائی ہے وہ خوفناک ہے ۔ لیبیا، ہانگ کانگ، امریکہ ،سپین،کوریا، چین اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں سیلابی ریلوں نے شہری زندگی مفلوج کردی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ، ہزاروں مارے گئے، ٹرانسپورٹ اور بجلی کا نظام درہم برہم ہوا اور انسان بے بسی سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔موسمیاتی تبدیلیوں کا یہ صرف ٹریلر ہے ، اصل فلم تو ابھی چلی ہی نہیں ۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ دنیا کے زیادہ تر لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی محض ایک ڈھکوسلہ ہے ،اور جو لوگ اسے حقیقی خطرہ سمجھتے ہیں وہ بھی یہ نہیں جانتے کہ اِس سے نمٹنے کیلئے کیا کیا جائے ، وہ فقط ورلڈ ارتھ ڈے کے موقع پر ایک منٹ کیلئے گھر کی بتیاں بجھا کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک اچھے انسان ہونے کی ذمہ داری پوری کردی۔اسی طرح دنیا کی فاسٹ فیشن انڈسٹری عالمی سطح پر ہونے والے کاربن اخراج میں سے دس فیصد کی ذمہ دار ہے جوکہ شپنگ اور ہوا بازی سے بھی زیادہ ہے۔
حضرت انسان کے جس قسم کے لچھن ہیں انہیں دیکھ کر لگتا تو نہیں کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خوفناک نتائج سے نمٹ پائے گے، رہی یہ خوش فہمی کہ ہم ہومو سیپئن ہیں اِس لیے بچ جائیں گے ،تو عرض یہ ہے کہ کر ہ ارض پر لاکھوں برس سے اب تک جتنی بھی species پیدا ہوئی ہیں اُن میں سے 97 فیصد سے زائد معدوم ہوچکی ہیں ، ہمارا شمار باقی تین فیصد میں ہوتا ہے ۔لیکن اِس تاریک صورتحال میں امید کی کرن صرف سائنس ہے ، اگر کوئی سائنسی معجزہ ہوگیا اور انسان fusion کے عمل کے نتیجے میں توانائی پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اُس صورت میں نسل انسانی کے بچاؤ کی امید ہے ، ورنہ ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔