سول ملٹری تعلقات اورفیض آباد دھرنا کیس

بلال الرشید
01 اکتوبر ، 2023
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ملکی ترقی، استحکام اور امن کیلئے ایک دوسرے سے تعاون بڑھانا ہوگا ۔ آرمی چیف درست نتیجے پر پہنچے ہیں ، ایک دوسرے سے تعاون کے بغیر ملکی ترقی ، استحکام اور امن پانے کا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہ ہو گا ۔ شاعر نے کہا تھا
موذن مرحبا بروقت بولا
تیری آواز مکے اور مدینے
عمران خان کی حکومت گرنے کے بعد فوج کے خلاف احتجاج ہوا تو فوجی ترجمان جنرل بابر افتخار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے فرمایا:جس دن ( پی ڈی ایم کی )نئی حکومت بنی ، اس دن ڈالر کا ریٹ نیچے آیا اورا سٹاک ایکسچینج مستحکم ہوئی۔ بعد ازاں سب نے دیکھا کہ ڈالر اورا سٹاک ایکسچینج کا کیا حال ہوا۔
ڈیڑھ سال بعد فوج حرکت میں آئی تو ریٹ قدرے کم ہوا۔ آ ج بھی مگر ڈالر 287روپے کا ہے ۔ تحریک انصاف کے آخری دن 178 کاتھا۔ صرف ڈالر کا ریٹ بڑھنے سے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ یہ اس لیے نہیں کہ عمران خان بہت بڑے معاشی جینئس ہیں ۔اس عدم استحکام کی وجہ یہ ہے کہ ملک کا سب سے مقبول سیاسی لیڈر جیل میں پڑا ہے اور خوف کی فضا قائم ہے۔ عمران خان پر دو سو مقدمے قائم ہیں اور حتیٰ کہ دہشت گردی کے مقدمے بھی ۔
پورے ملک میں پی ٹی آئی پہ کریک ڈائون ہے ۔ 2018ء کے الیکشن سے پہلے فوج نے عمران خان کے سر پہ ہاتھ رکھا ۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی والے تین سال عمران خان کوطنزاً لاڈلا اور سلیکٹڈ کہتے رہے۔ خود جنرل قمر باجوہ نے نومبر 2022ء میں اپنے الوداعی خطاب میں یہ کہاکہ بھارت میں فوج پر تنقید نہیں ہوتی ۔ ایک سال پہلے ہم نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کافیصلہ کیا ۔ حریف یہ کہتے ہیں کہ یہ کنارہ کشی نہیں بلکہ ہاتھ عمران خان کے سر سے اٹھا کر مخالفین کے سر پہ رکھنے کا فیصلہ تھا ۔
آج عمران خان پہلے سے زیادہ مقبول ہیں ۔ بھٹو کو پھانسی دے کر بھی سیاست سے نکالا نہ جا سکا۔ نوا ز شریف، جنہیں فوج نے خود تخلیق کیا تھا، جنرل باجوہ کے خلاف بیان دیتے پھرتے ہیں۔ بے نظیر کے خلاف نواز شریف کی مدد کی گئی مگر بے نظیر دو دفعہ وزیرِ اعظم بنیں۔فیض آباد دھرنا کیس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ بھی سول ملٹری تعلقات کی صورتِ حال کو پوری طرح واضح کر دیتا ہے ۔چند برسوں کے اندر اندر سیاسی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ نے اس طرح موقف بدلا کہ حیرت ہوتی ہے ۔فیض آباد کے دھرنے میں مدد دینے والوںکے خلاف اداروں کے سربراہان کے ذریعے کارروائی کا حکم دیا گیا تھا، جس کے خلاف نظرِ ثانی کی کئی درخواستیں دائر کی گئیں ۔تجزیہ کار معید پیرزادہ نے کئی روز پہلے ہی بتا دیا تھا کہ نظرِ ثانی کی درخواستیں واپس لے لی جائیں گی ۔ بنیادی طور پر یہ درخواستیں دائر کروانے والی قوت ایک ہی تھی ۔ اب درخواستیں واپس لی جا رہی ہیں کہ پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکا ۔ فوج کی حمایت اس وقت تحریکِ انصاف کے ساتھ تھی ، جس سے اب قطع تعلقی ہی نہیں بلکہ دشمنی ہو چکی ۔ سپورٹ اس وقت نون لیگ اور پیپلزپارٹی کیلئے دکھائی دیتی ہے ، جن کے خلاف عمران خان کو یہ کہا گیا تھا کہ ان دو خاندانو ںکوکبھی کسی صورت این آر او نہیں دینا۔
دوسری طرف میاں محمد نواز شریف کا فیصلہ ہے ، ہر دس سال بعداسٹیبلشمنٹ جن سے تعلقات کی نوعیت بدل لیتی ہے ۔80ء کی دہائی میں فوج نے انہیں تخلیق کیا ۔ میرے سامنے جنرل حمید گل مرحوم نے فرمایا: اس وقت ہمیں ایک بھولا بھالا آدمی درکار تھا ۔ کیا معلوم تھا کہ بعد میں وہ ایسا ہو جائے گا۔ یہ بھولا بھالا آدمی تین دفعہ ملک کا وزیرِ اعظم بنا۔ اس کا مطلب واضح ہے : فوج اپنے کسی بھی سیاسی تجربے کی شروعات تو طے کر سکتی ہے مگر مستقبل نہیں ۔ عمران خان بھی بعد ازاں فوج کے گلے پڑ گئے ۔ میاں محمد نواز شریف نے ابھی چند دن پہلے ہی جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے خلاف انتقامی جذبات ظاہر کیے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا، جب فوج میاں صاحب کے ساتھ تعلقات خوشگوار بنیادوں پر استوار کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی ۔ اس سے میاں صاحب کی دور اندیشی بھی ظاہر ہوتی ہے کہ الیکشن سے پہلے ہی اپنا مستقبل تاریک کر لیا ۔
فوج کی سیاست سے کنارہ کشی وہی واحد راستہ ہے ، جو جنرل کیانی نے اختیار کیا تھا ۔ چھ برس کے اندر فوج مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑنے لگی تھی ۔ اگر ایک فوج سرحدوں پر اپنی جانیں قربان کرے گی تو کیوں عوام اس سے محبت نہ کریں ۔ملک میں دہشت گرد ایک بار پھر منظم ہو چکے ۔ روزانہ سکیورٹی فورسز جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں ۔ اس کے باوجود دل خون کے آنسو روتا ہے ، جب لوگ سکیورٹی فورسز کو برا بھلا کہتے ہیں ۔ وجہ ؟ صرف اور صرف سیاست میں دخل اندازی ۔ اس سب سے بچا جا سکتا تھا ، اگر عمران خان ، آصف علی زرداری اور شریف برادران کو صاف صاف بتا دیا جائے کہ سیاسی میدان میں فوج کسی کی کوئی مدد نہیں کرے گی۔ سیاست دان سیاسی میدان میں اپنی لڑائی خود لڑیں ۔
سیاست سے کنارہ کشی کا ایک روڈ میپ تیار ہونا چاہئے تا کہ فوج کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔ سیاست دانوں کے معاملات انہیں آپس میں نمٹانے دیے جائیں ۔ یہ واحد حل ہے ورنہ زراعت، صنعت، معدنیات اور آئی ٹی سے متعلق جتنے بھی منصوبے فوج بنائے گی، وہ سیاسی عدم استحکام کی نذر ہو جائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)