مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی میں ’’سرد جنگ‘‘

نواز رضا
01 اکتوبر ، 2023

بدقسمتی سے پاکستان کی 75سالہ سیاست بدترین محاذ آرائی کا شکار رہی۔سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف تحاریک چلانے کے جنون میںکئی بار طالع آزمائوں کو مارشل لا نافذ کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر اقتدار کی بساط لپیٹنے میں کلیدی کر دار ادا کیا۔ پاکستان کی سیاست طویل عرصہ تک پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی کیمپوں میں منقسم رہی،ابتدا میں یہ تقسیم بڑی حد تک نظریاتی تھی لیکن جلد ہی اس تقسیم نے ذاتی عناد اور دشمنی کی شکل اختیار کر لی ۔سیاست بڑا بے رحم کھیل ہے آغا شورش کاشمیریؒ کہا کرتے تھے کہ’’ سیاست دان کے ہاتھ میں رحم کی لکیر نہیں ہوا کرتی،اقتدار کی خواہش باپ کو جیل میں ڈال دیتی ہے اور بھائی بھائی کی آنکھیں نکلوا دیتا ہے ‘‘۔ سو پاکستان میں بھی بے رحم سیاست دانوں نے جنرل ضیاء الحق کو یہ باور کرا یا کہ قبر ایک ہے اور آدمی دو ۔لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے تختہ تک پہنچانے میں سیاست دانوں کا بھی بڑا کردار تھا جنہوں نے ذوالفقار بھٹو سے ’’خوفزدہ‘‘ جرنیل کو انہیں تختہ دار پر لٹکانے پر مجبور کر دیا لیکن جب ضیا ء الحق نے اونٹ کو نکیل ڈالی تو 10سال تک کسی سیاست دان کو اس پر سواری نہ کرنے دی۔ 50سال قبل جو سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی کے خلاف صف آراتھیں وہ آج پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں وقت کے ساتھ سیاسی حلیف اور حریف بدلتے رہے سیاست میں پی ٹی آئی کا نیا عنصر شامل ہونے کے بعد نئی صف بندی ہوئی پی ٹی آئی کی دشمنی پر مبنی حکمرانی نے اس کے دشمنوں کو نہ صرف ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا بلکہ انہیں عمران خان سے اقتدار چھین کر 16ماہ تک حکومت کرنے کا موقع فراہم کر دیا اور پھر عمران خان کو جیل بھجوا کر دم لیا ۔70ء کے عشرے میں مسلم لیگ کونسل ہوا کرتی تھی جس کے قائد میاں ممتاز دولتانہ تھے جنہوں نے پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہو کر برطانیہ میں ہائی کمشنری کا منصب قبول کرلیا تھا ، دائیں بازو اور بائیں بازو کی کشمکش میں جماعت اسلامی پیش پیش تھی جب کہ مسلم لیگ کی قیادت پیر صاحب پگارا کے پاس تھی،ذوالفقار علی بھٹو پیر صاحب پگارا کےمذہبی مقام کے پیش نظر ان کے شایان شان سلوک روا رکھتے تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے میاں طفیل محمد اور ملک قاسم کے ساتھ لاہور قلعہ کے عقوبت خانہ میں جو کچھ کیا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا بدنما داغ ہے جسے تمام تر کوشش کے باوجود فراموش نہیں کیا جاسکتا ذوالفقار علی بھٹو نے خان عبدالولی خان ، ایئرمارشل اصغر خان اور چوہدری ظہور الہٰی کو ٹھکانے لگانے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ محفوظ رہے پھر یہی شخصیات ذوالفقار علی بھٹوکو تختہ دار پہنچانے میں پیش پیش رہیں ۔بے نظیر بھٹو کے پاس پیپلز پارٹی کی قیادت آئی تو ان کا سامنا مسلم لیگ (ن)کے تازہ دم قائد نواز شریف سے ہوا دونوں کے درمیان محاذ آرائی عروج پر رہی ہے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتی رہی جب پرویز مشرف نے نواز شریف کے بعد بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی کی زندگی بسرکرنے پر مجبور کر دیا تو پھر دونوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور ان کے درمیان لندن میں مئی2006ء میں تاریخی ’’میثاق جمہوریت‘‘ ہوا ،اس معاہدہ پر پوری طرح عمل درآمد تو نہ کیا گیا لیکن جمہوری عمل کو جاری و ساری رکھنے کے کسی حدتک عمل درآمد ہوا اس معاہدہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی ختم ہو گئی ۔بھلا ہوعمران خان کاجب ان کو مسند اقتدارپر بیٹھنے کا موقع ملا تو ان کے اندر چھپےفاشسٹ حکمران نے اپنے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا ، عمران خان میں ذرا بھی سیاسی سوچ ہوتی تو وہ نہ صرف اپنی آئینی مدت مکمل کرتےبلکہ اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر متحد نہ ہونے دیتے اقتدار سے محرومی کے بعد ملک کے ایک سینئر صحافی نے عمران خان سے کہا کہ’’ آپ کیسے سیاست دان ہیں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو اپنے خلاف اکٹھاکر دیا،آپ آصف علی زرداری کو اپنے قریب تر کر کے نواز شریف کو تنہا کر سکتے تھے دشمن کا دشمن دوست بن جایا کرتا ہے‘‘ یہی وجہ ہے عمران خان کے خوف نےمختلف الخیال جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا ،پھر چشم فلک نے دیکھا کہ آصف علی زرداری چل کر شہباز شریف کے پاس گئے اور انہیں وزارت عظمٰی طشتری میں پیش کی اور اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر خارجہ بنوا دیا ، 16ماہ تک آصف علی زرداری اور نواز شریف باہم ’’شیرو شکر‘‘ رہے ،آصف علی زرداری کے ایک اشارہ ابرو پر شہباز دوڑے چلے آتے زرداری کی ’’پرچی‘‘ چلتی تھی جوں ہی شہباز شریف کی حکومت ختم ہوئی اورانوار الحق کاکڑ نے مسند وزارت عظمیٰ سنبھالی تو پیپلز پارٹی کچھ اکھڑی اکھڑی سی نظر آنے لگی فواد حسن فواد اور ممتاز تارڑ کے بطور وفاقی وزیر حلف اٹھانے کے بعد تو پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) پر طنز کے تیر چلانا شروع کر دئیے ،بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ (ن) پر تنقیدکرنے میں پیش پیش ہیں ان کی دیکھا دیکھی پیپلز پارٹی کےدوسرے درجے کے لیڈر بھی حاضری کیلئے اپنا ’’لچ‘‘ تل رہے ہیں جس سے ’’سرد جنگ ‘‘ کو ’’گرم جنگ‘‘ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے بعض اوقات دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے لیڈر اپنی تما م حدود کراس کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹونے کہا کہ’’لیول پلیئنگ فیلڈ ‘‘ کی شکایت کسی اور سے نہیں صرف مسلم لیگ (ن) سے ہے کسی اور سے شکایت کی ہوتی تو اس کا نام لے کر شکایت کرتا لیکن یہ رونا دھونا ایسے ہی جیسے پنجابی میں کہتے ہیں ’’روندی یاراں نوں ناں لے کےنام بھرواں دا‘‘ اب انہوں نے اپنی گیند آصف علی زرداری کی کورٹ میں پھینک دی اور کہا ہے کہ وہی اس ایشو کا حل نکالیں ۔انتخابات کی تاریخ و شیڈول دینے کا اختیار اسٹیبلشمنٹ یا کسی اور کے پاس نہیں الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔پیپلز پارٹی نواز شریف کی واپسی کو ویلکم کرے گی ہم اپنے مقدمات کا سامنا کریں گے وہ اپنے مقدمات کا سامنا کریں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر خرم دستگیر خان نے پیپلز پارٹی کی تنقید کا واضح جواب دینے سے گریز کیااور کہا کہ16ماہ پر مشتمل 15جماعتوں کی مشترکہ حکومت میں مثالی اتحاد پایا جاتا تھا، پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ سردست بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ (ن) سے گلے شکوے نہیں کر رہے البتہ انہیں اس بات سے پریشانی ہے کہ مسلم لیگ (ن) آئند ہ سیٹ اپ سے کہیں پیپلز پارٹی کو ہی نہ نکلوا دے۔