بیوروکریسی کے حضور!

اعظم ملک
01 اکتوبر ، 2023

افسر شاہی یا بیورو کریسی ایک تنظیمی نظام ہے جو مخصوص قوانین اور طریقہ کار کے مطابق، حکومتی و انتظامی معاملات کے نظم و نسق کا ذمہ دار ہے۔ بیورو کریسی کا لفظ فرانسیسی لفظ بیورو سے ماخوذ ہے؛ جس کا مطلب ہے 'آفس یا ڈیسک جبکہ اس کا لاحقہ یونانی لفظ کراٹا سے اخذ کیا گیا ہے؛ جس کے معنی حکومت، غلبہ یا طاقت کے ہیں۔ اس لحاظ سے بیورو کریسی کا مطلب ’ڈیسک کی طاقت‘ ہے۔کالم کا عنوان’’ بیورو کریسی کے حضور‘‘ سرکاری افسران کی توجہ چند گزارشات پر مبذول کرنے کیلئے رکھا گیا ہے۔ ویسے تو پروفیسر شاہد نسیم، ڈاکٹر بشریٰ اور ڈاکٹر عبدالقیوم نے کتاب ’’بیوروکریسی کے حضور‘‘ میں نہایت خوبصورت انداز میں افسران شاہی کی زندگیوں کے حقائق بیان کئے ہیں۔ اس کتاب میں بیورو کریسی کے ساتھ ساتھ مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور صحافیوں کے انٹرویوز کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ ان کے تجربات اور علم سے بھی استفادہ کیا جاسکے۔ہمارے معاشرے میں روزمرہ کے مسائل کے حل کیلئے سول بیورو کریسی کا کردار بنیادی نوعیت کا حامل ہے لیکن پی ایم ایس یا سی ایس ایس کرنے کے بعد جب عام شہری ’’خاص‘‘ ہو جاتا ہے اور یکدم انتظامی اختیارات اور طاقت اس کے ہاتھ میں آتے ہیں تو بسااوقات اکثر افراد اپنا اصل بھول جاتے ہیں۔ اگرچہ تخصیص ہر شعبہ ہائے زندگی کی طرح یہاں بھی موجود ہے مگر شنید ہے کہ بیورو کریسی کی ٹریننگ ہی اس اصول کے تحت کی جاتی ہے کہ سرکاری افسران اپنے آپ کو عوام سے الگ تھلگ سمجھیں۔ غالباً یہ برطانوی میراث ہے، جس میں اس بات کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔جیسے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح بیورو کریسی میں بھی ایسے افسران پائے جاتے ہیں جو انسانیت کی خدمت کے عزم سے آتے ہیں، بہت سے افسران ایسے ہیں جو خود کو پبلک ’’سرونٹ‘‘ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم میاں شکیل ،سیکرٹری مواصلات سہیل اشرف ۔سیکرٹری انفارمیشن علی نواز ملک، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن جاوید اختر اور سیکرٹری خزانہ مجاہد شیر دل ، اورا سپیشل سیکرٹری ہیلتھ راجہ منصور اچھے طریقے سے پنجاب کے معمولات چلا رہے دوسری طرف سیکرٹری صحت علی جان افسرتو اچھے ہیں مگر جو کام انھیں کرنے چاہئیں وہ کام چیف منسٹر پنجاب خود کر رہے ہیں۔چیف منسٹر محسن نقوی کے ساتھ میں جب بھی کسی اسپتال کے دورے پر جاتا ہوں تو عوام کی شکایات کے انبار لگے ہوتے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ سیکرٹری صحت علی جان صاحب عوام کی مشکلات کم کریں مگر بد قسمتی سے ہر بار اسپتالوں میں عوام کے دکھوں میں اضافہ ہی دکھائی دیتا ہے جس کا مداوا وزیر اعلیٰ پنجاب کو خود کرنا پڑتا ہے،اسی طرح اگر بات سول بیورو کریسی کے چیف سیکرٹری چوہدری زاہد زمان کی ہو تو وہ بھی اتنے متحرک نظر نہیں آتے، جس قدر متحرک وزیر اعلی پنجاب ہیں۔مجھے لگتا ہے انکی اسپیڈ وزیر اعلیٰ پنجاب سے مطابقت نہیں رکھتی۔ عوام کی خدمت کا جو جوش اور ولولہ میں محسن نقوی میں دیکھتا ہوں، چیف سیکرٹری میں وہ محسوس نہیں ہوتا۔ پولیس بیوروکریسی میں پولیس کے چیف، آئی جی ڈاکٹر عثمان انور اپنے پولیس ڈیپارٹمنٹ کیلئے تو بہت اچھے ہیں، اپنے ملازمین کو ترقیاں دے رہے ہیں مگر عوام کی مشکلات کو حل کرنے میں ناکام ہیں، عوام کی جان مال کی حفاظت کرنا انکے ڈیپارٹمنٹ کیلئے مشکل ہوتا جا رہا ہے،پنجاپ میں کرائم ریٹ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔میرے خیال میں انھیں اپنے ادارے کی فلاح بہبود کے ساتھ ساتھ عوام کیلئے بھی سوچنا چاہئے، دوسری طرف اگر لاہور پولیس کے کمانڈر بلال صدیق کمیانہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو انکے روعب اور دبدبے کے باعث انکے ماتحت افسران عوام کے کام کرنا فرض سمجھتے ہیں، انکے لئے صرف اتنا کہوں گا کہ وہ ایک ڈوئر افسر ہیں۔سول بیوروکریسی میں چیف منسٹر پنجاب کا آفس بہت اہم ہوتا ہے،دراصل سی ایم آفس کی بیوروکریسی پورے پنجاب کو چلا رہی ہوتی ہے اور وہاں سب سے اہم عہدہ پرنسپل سیکرٹری ٹو سی ایم کا ہوتا ہے۔ آج کل اس عہدے پر سمیر سید تعینات ہیں جو دن رات کام کر رہے ہیں اور ایک شاندار افسر ہیں۔ سی ایم آفس میں ڈپٹی سیکرٹری ڈاکٹر انس ،ڈپٹی سیکرٹری نوید احمد ،خواجہ عمیر اور کریم داد بھی ہونہار افسر ان ہیں۔ان افسران کو بھی چیف منسٹر آفس سے باہر ڈی سی شپ پر لگانا چاہیے کیونکہ جو افسر وزیر اعلیٰ آفس میں کام کر رہا ہوتا ہےوہ انتظامی طور پر بہت مضبوط ہوتا ہے۔چیف منسٹر پنجاب کے ساتھ وزٹ کرتے ہوئے میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ اگر بیورو کریسی کے افسران یہ ٹھان لیں کہ عوامی مسائل کا حل انکی اولین ترجیح ہے تو شاید وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنےآفس سے باہر نکلنے کی ضرورت تک نہ پڑے مگر افسوس سے بیورو کریسی کے حضور یہی عرض کر سکتا ہوں آپ لوگ پبلک سرونٹ بنیں نا کہ سول سرونٹ!