مائنس ون: ’’ریت میں مچھلی کی تلاش‘‘

ڈاکٹر مجاہد منصوری
03 اکتوبر ، 2023
نگران حکومتی اقدامات و اعلانات کے ساتھ ہی ملک میں انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ سوال بنے الیکشن کمیشن کے مطابق عام انتخابات کا انعقاد جنوری میں ہوگا، حتمی تاریخ اب بھی نہیں دی گئی۔ بہرحال مسلسل ہوتے سرویز کے مطابق سب سے مقبول جماعت زیر عتاب تحریک انصاف کے علاوہ باقی تمام پارلیمانی حیثیت کی سیاسی جماعتوں نے ابتدائی انتخابی سرگرمیاں شروع کردی ہیں۔ سب سے پہلے ن لیگ، تحریک انصاف اور اے این پی میدان میں اتریں، لیکن تحریک انصاف کو ضلع کرک کی انتظامیہ سے تحصیل تخت نصرتی میں ورکرز کنونشن کی نہ صرف اجازت نہیں دی گئی بلکہ اس کے مقامی رہنمائوں اور کارکنوں نے کرک سٹی میں اے این پی کے جلسے کی تیاری سے حوصلہ پاتے اپنے ورکرز کنونشن کا اعلان کیا تو اے این پی کو تو جلسے کی اجازت مل گئی لیکن تخت نصرتی میں دفعہ 144لگا دی گئی، اس پر بھی ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ہونے والے جلسے سے کہیں کم محدود ورکرز کنونشن کرنے کی کوشش کی گئی تو اسے روکنے کے لئے بھاری پولیس نفری بھیج دی گئی اور مقامی رہنما کامران خٹک کے گھر میں جمع ہونے والے ورکرز پر پولیس نے دھاوا بول کر بیس کارکن گرفتار کرلئے۔گویا عام انتخابات کے اعلان کے فوراً بعد ہی دو سیاسی جماعتوں سے انتظامیہ کے مختلف سلوک سے آگے بنتے انتخابی ماحول کی تیاری اور سرگرمیوں میں نگرانوں کے جانبدارانہ سلوک کی آئین و قانون کے گمراہ کن متبادل ’’لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ پر پکتی دیگ کا چاول ٹیسٹ ہوگیا۔ مطلب یہ کہ ایک ہی ضلع کے ہیڈ کوارٹر میں تو جلسے کے انعقاد سے کوئی نقص امن کا خطرہ نہ ہوا، لیکن تخت نصرتی میں پی ٹی آئی ورکرز کنونشن کو بھی اسی وقت میں دفعہ 144 لگا کر کنونشن اکھاڑ دیا گیا اور 20 کارکن بھی گرفتار کرلئے گئے۔ کثیر دیہی آبادی کا حامل کرک ایک دورافتادہ ضلع ہے۔ لگتا ہے اے این پی نے انتخابی حکمت کے مطابق آغاز دیہی علاقے کے ووٹرز کا اے این پی کی جانب رویہ ٹیسٹ کرنے کے لئے انتخابی مہم کا آغاز وہاںسے کیا۔ زیر عتاب تحریک انصاف نے بھی (شاید) اپنے تئیں بہت بہتر اور محتاط انداز میں کرک کے مکمل دیہی حلقہ انتخاب میں (جلسے کا بھی نہیں) ورکرز کنونشن کے آغاز سے ووٹ اور ووٹر کی عزت اور نگرانوں کے رویے کو ٹیسٹ کرنے کےلئے انتخابی شیڈول کے اعلان پر پہلا ہی قدم اٹھایا تو اے این پی کو تو جلسے کی کھلی اجازت مل گئی لیکن پی ٹی آئی کی محدود سرگرمی پر بھی پولیس دھاوے اور گرفتاریوں نے آغاز پر ہی نگرانوں کی نگرانی کی اہلیت و ذہنیت کا پردہ مکمل چاک کردیا۔ پی ٹی آئی کے باغی رہنما پرویز خٹک نے بھی کوہاٹ میں بلارکاوٹ پہلا جلسہ کر ڈالا۔ اس سے قبل دیار غیر میں غیر ملکی میڈیا سے انٹرویو میں الیکشن کےبارے میں نگران وزیر اعظم کے غیر ذمے دارانہ متعصبانہ بیان سے لے کر ریموٹ تحصیل میں دو مختلف پارٹیوں سے متذکرہ غیر آئینی و غیر جمہوری سلوک کرکے انتخابی مہم کے آغاز پر ہی نگرانوں کی نگرانی کی اہلیت اور بمطابق آئین مطلوب غیر جانبداری کا بھانڈا نگراں حکومت نے کھلے بازار میں خود ہی نہیں پھوڑ دیا؟۔
یہ تو خیبر پختونخوا کے دور دراز دیہات میں ووٹ اور عام ووٹرز کی عزت کی ٹیسٹ رپورٹ کا کڑوا نتیجہ ہے۔ اب پاکستان کے بڑے سرگرم اور حتمی انتخابی نتائج میں بڑا کردار ادا کرنے والے لاہور کی بھی سن لیجئے۔ اور وہاں بھی ’’خواص‘‘ کی۔ مکمل اور مستند سزا یافتہ ن لیگی رہبر میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی بڑی امکانی ڈیل و ڈھیل کی خبریں اور ٹی وی ٹاک شوز،تبصرے، تجزیے تو گزشتہ کئی روز سے جاری تھے تاہم الیکشن کے انعقاد کے مہینے کا اعلان ہوتے ہی اس میں بہت تیزی آئی ہے اور لب لباب یہ ہی نکل رہا ہے کہ میاں صاحب قطع نظر اپنی قانونی حیثیت و پوزیشن کے نہ صرف بڑے بینی فشر بنا چاہتے ہیں۔ دعویٰ ہے کہ ان کا چوتھی بار وزیراعظم بننا ٹھہر گیا ہے۔ اگر یہ دعویٰ واقعی درست ہے تو پھر یہ بھی درست ہوگا کہ اگلا وزیراعظم کراچی کے موجود میئر کی طرح ہی ’’منتخب‘‘ ہوگا۔ مکمل قابل دید زمینی حقائق کے برعکس بلاول نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اب کراچی کا میئر پی پی کا ہوگا اور وہ آئین کو روندتا ہوگیا۔ سو بعید از قیاس نہیں کہ میاں صاحب بھی ملک بھر کے چپے چپے پر نظر آنے والے مصدقہ عوامی رجحانات کی آشکار حقیقت کے برعکس (بلکہ متصادم) پاکستانی اولیگارکی (مافیا راج) اپنی حقیقت کا رنگ اک بار پھر دکھا دینے کا حادثہ کربیٹھے ایسے ہی تو پنجاب میں اپنی مقبول عام رقیب روسیا پی ٹی آئی کی ووٹوں سے لبریز حقیقت کی پوزیشن اور بمطابق آئینی الیکشن کے بنیادی قانونی تقاضوں سے مکمل بے نیاز ہوئے ن لیگی رہنمائوں نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘اور مزاحمت کا بیانیہ راتوں رات ترک کرنے میں منٹ بھی نہیں لگایا۔کونسی حیا ، کونسی شرم، سیاست میں سب چلتا ہے، مٹی پائو، احتساب تباہ کن روایتی خواص دوست معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ کی اپروچ ببانگ دہل اختیار کرکے اسٹیٹس کو کے دفاع پر کمرکس لی گئی ہے۔ پارٹی رہیر کی لندنی کانفرنس میں شوق احتسابی کے اظہار میں اختتامی پنچنگ سین ٹینس پر زلزلے مانند نادید ردعمل عوام کا دل موہ لینے والے بیانیے کی ن لیگی تلاش ختم کرکے شہباز شریف لیول کا اظہار مفاہمت کا انداز اختیار ہوگیا۔ یہ شہباز صاحب ہی جانتے ہیں کہ زلزلہ کس اسکیل پر آیا۔ لیکن یاد رکھا جائے ووٹ ا ور ووٹر کو عزت ملے نہ ملے، ووٹر مہنگائی سے جتنا بھی کچلا جائے اتنا بے وقوف نہیں رہا کہ وہ اب سیاسی رہبروں کو دیوتا جان لیں۔ مظاہرہ لاہور کے شاہدرہ میں ن لیگی پہلے مختصر مدتی اور جلسہ صغیر میں ہوگیا۔ جہاں ووٹ کی عزت میں اتنا اضافہ ضرور ہوا کہ اب عزت پرتکلف بریانی تک محدود نہیں جو جلسے میں سب سے زیادہ ووٹر لائے گا اس پر ووٹروں کو عمدہ بریانی بٹنے کے علاوہ انہیں لانے والے کو موٹر سائیکل بھی ملے گی۔ بھائی نگرانو! کیا ہوگیا تمہیں؟ اب تو ثابت ہونے میں کوئی کسر نہیں رہی کہ تباہ کن قومی معیشت کا علاج صرف اور صرف الیکشن بمطابق آئین ہی ہے تاکہ پھر اسی عطار کے . . . . . کا تجربہ ریت میں مچھلی کی تلاش کے مترادف ہے۔ خدا را سمجھو پاکستان اس کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا۔ مائنس ون کی بڑی تعداد، کسی مخصوص پارٹی یا لیڈر کو انتخابی عمل سے کاٹ کر روایتی ٹیلر میڈ الیکشن ترقی جاریہ (sustainabl development)کی سائنس اور آئین پاکستان سے متصادم ہوگا۔ ایسے کسی الیکشن سے نہ برباد قومی معیشت بحال ہوگی اور نہ فوری سیاسی استحکام قائم ہوگا۔ وما علینا الالبلاغ۔