بچوں سے جبری مشقت۔ایک منظم کاروبار

ایس اے زاہد
03 اکتوبر ، 2023
معصوم بچوں اور بچیوں سے نوکری اور مزدوری کرانا ہمارا ایک بہت بڑا المیہ بنتا جا رہا ہے۔ معصوم بچوں اور بچیوں کو نوکریاں دلانا باقاعدہ ایک کاروبار بن گیا ہے۔ یہ ایک مافیا ہے جو چند پیسوں کی خاطر اس ظلم کے کاروبار کو جاری رکھنے میں ملوث ہے۔ لیکن اس ظلم میں بنیادی کردار ان والدین کا ہے جو اپنے معصوم بچوں اور بچیوں کو گھروں سے لا کر اس مافیا کے سپرد اس لئےکرتے ہیں کہ ان کو ہرماہ چند روپے ملتے رہیں۔ ان معصوموں پر کیا گزرتی ہے ان ظالموں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ جب والدین کوہی اپنے معصوم بچوں پر ترس نہیں آتا تو کسی اور کو بھلا کیا ترس آئے گا۔
ایسے والدین کا زیادہ تر تعلق جنوبی اور کچھ کا وسطی پنجاب سے ہوتا ہے۔ ایسے ظالم والدین کا موقف یہ ہے کہ وہ نہایت غریب ہیں۔ بچوں کو روٹی تک نہیں کھلا سکتے۔ خود بھی اکثر بے روزگار ہوتے ہیں اس لئےبچوں سے لوگوں کے گھروں میں نوکریاں کراتے ہیں۔ جہاں بچوں کو پیٹ بھر کر روٹی ملتی ہے اور ہمیں ہر مہینے کچھ پیسے ملتے ہیں جن سے ہماری بھی روزی روٹی کا کچھ انتظام ہو جاتا ہے۔ یہ کتنی بے تکی بات اور غیر منطقی دلیل ہے۔ اس لئے کہ اگر چادر کو دیکھ کر پائوں پھیلائے جائیں۔ آبادی کو کنٹرول کیا جائے تو ملک، قوم اور فرد بہت ساری معاشی مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔ اگر یہی صورت حال جاری رہتی ہے تو ماہرین کے مطابق آنے والے سالوں میں بے روز گاری ، معاشی مسائل، بدامنی اور صحت کی سہولتوں کے فقدان میں ایسا اضافہ ہو جائے گاکہ جس پر قابو پانا کسی کے بس میں نہیں رہےگا۔ہم آبادی پر کنٹرول نہ کرکے ان پڑھوں اور جرائم پیشہ یا مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کی تعداد میں خود اضافہ کر رہے ہیں۔ ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم کبھی بھی اپنی کسی غلطی کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کیلئے بے تکے دلائل کا سہارا لینے کی کوشش کرتےہیں۔ بہت سے اپنے پیدا کردہ مسائل کے حل کی ذمہ داری حکومت وقت پر ڈالتے ہیں۔
مثال کے طور پر بے روزگاری ، مہنگائی ، صحت کی سہولتوں کی کمی، تعلیم حتیٰ کہ صفائی اور پینے کے صاف پانی کی کمی اور عدم دستیابی اور شہروں میں نکاسی آب میں رکاوٹ اور نالوں کی صفائی ان سب مسائل کی ذمہ داری حکومت وقت پر اور حکومت وقت سابقہ حکومت پر ڈالتی آرہی ہے۔ آبادی پر قابو پانا جتنا ضروری ہے حکومتیں اور عوام اتنا ہی اس بنیادی مسئلے سے غافل ہیں۔ کچھ لوگ غربت کی آڑ لے کر اپنے معصوم بچوں جن کی عمریں 8سے 15 سال تک ہوتی ہیں جو ان کی پڑھائی لکھائی اور کھیلنے کودنے کی عمریں ہوتی ہیں ،گھروں سے بے گھر کر کے اس مافیا کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس مافیا نے اس ظلم کے کاروبار سے روٹی کمانے کے لئے دفتر بنا رکھے ہیں۔ ان دفاتر کی باقاعدہ تشہیر کی جاتی ہے اور جن گھروں میں نوکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان دفاتر سے رابطہ کرتے ہیں اور پھر بچہ ان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ایسے گھروں کے مالکان یہ نہیں سوچتے کہ یہ اس معصوم کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے۔ آئے روز اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ان معصوم مزدوروں پر ظلم و تشدد کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔
ان بچوں کے والدین اپنے ہی بچے یابچی پر ظلم و تشدد کو کیش کرانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں نوے فیصد کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اس بارے میں ہمارے ملک کا قانون کیا کہتا ہے یہ تو قانونی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں لیکن مقدمہ صرف تشدد کرنے والے میاں بیوی وغیرہ پر ہی بنتا ہے اور وہ بھی کسی موڑ پر مک مکا کر کے ختم ہو جاتا ہے اور تشدد کے شکار بچہ یا بچی کو وہی والدین اسی مافیا کے ذریعے کسی اور گھر میں نوکری کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ اس مافیا کا باقاعدہ ایک نیٹ ورک ہے۔ جنوبی اور وسطی پنجاب کے علاقوں میں اس کار بد میں ملوث ایجنٹ موجود ہوتےہیں جن سے والدین رابطہ کرتے ہیں پھر ان ایجنٹوں کا رابطہ مختلف مافیا دفاتر سے ہوتا ہے اور وہ ان بچوں کو لا کر اس مافیا کے حوالے کر کے اپنا کمیشن وصول کر لیتے ہیں۔ یہ دفاتر مافیابھی کمیشن پر یہ کام سر انجام دیتا ہے۔ لیکن بڑی عجیب بات یہ ہے کہ آج تک چائلڈ لیبر قانون کے تحت نہ تو ان ظالم والدین کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ہے نہ ان سپلائر ایجنٹوں کے خلاف ۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو نامی ایک ادارہ تو موجود ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ یہ معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے یا نہیں۔ جہاں تک پولیس کا تعلق ہے وہ اس وقت حرکت میں آتی ہے جب کسی معصوم مزدور پر ظلم کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے۔ شاید یہ معاملہ ان کے بھی دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ پھر خدا جانے چائلڈ لیبر کے خلاف موجود قانون کا کیامطلب ہے اور وہ ان معصوموں کو کس طرح اس ظلم و جبر سے بچا سکتا ہے۔ ان سنگدل تشدد کرنے والوں اور اس میں ملوث یا شامل والدین ایجنٹوں اور دفاتر مافیا کے خلاف کوئی کارروائی اور ان کو عبرت ناک سزا کون دلائے گا۔ حکومتوں سے توقطعاً کوئی امید نہیں ہے اس کا ر خیر کوسر انجام دینے کی بھی۔آخری امید آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر ہی ہیں۔ ہم ان سے نیکی کے اس کام کی درخواست کرتے ہیں۔