لوک ادب سے دلچسپی رکھنے والوں نے پوچھا ہے کہ عمر مارئی کی کہانی میں کہانی کا ہیرو کون ہے۔ سوال پوچھنا یا سوال کرنا یا سوال اٹھانا مجھے اچھا لگتا ہے۔ سوال آگہی کے بند دروازے کھول دیتے ہیں۔ اپنے مخمصوں، اپنے تجسس اور اپنی آگاہی کے لئے آپ سوال پوچھ سکتے ہیں۔ آپ اپنے اساتذہ اور والدین سے سوال پوچھ سکتے ہیں۔ پچھلے ادوار میں آپ سوال میں جو چاہیں پوچھ سکتے تھے۔ کوئی بندش نہیں تھی مگر بدلتے ہوئے حالات کے تحت آپ کسی سے کسی قسم کا سوال نہیں پوچھ سکتے۔ طرح طرح کی مصیبتیں گلے پڑ جاتی ہیں۔ آپ کے جو آگاہی کے درو ازے بند ہوئے ہیں، لگتا ہے قیامت تک بند رہیں گے۔ نہ سوال پوچھے جائیں گے اور نہ آپ کی بوکھلاہٹ اور تذبذب دور ہوگا۔ آپ کے اندر سوالوں کا جنگل گھنا ہوتا رہے گا۔ کچھ عرصہ بعد آپ محسوس کرنے لگیں گے کہ آپ سوالوں کے جنگل میں رہتے ہیں۔ آپ کو منطق سے عاری سنی سنائی باتوں پر اعتبار کرتے ہوئے زندگی گزار دینی ہے۔ اعتراض کرنے کے لئے آپ کے پا س گنجائش نہیں ہے۔ خواہ مخواہ مارے جائیں گے۔
ایک کہانی کار ہونے کے ناطے میں نے سندھی لوک ادب میں عمر مارئی کی کہانی بار بار پڑھ کر دیکھی ہے۔ کہانی میں کہیں بھی ہمیں مارئی کے لئے سوہنی مہیوال والا مہیوال نہیں ملتا۔ مارئی کا کوئی مہیوال نہیں تھا۔ مارئی کا کوئی شیریں فرہاد والا فرہاد دکھائی نہیں دیتا۔ مارئی کا کوئی رانجھا نہیں تھا۔ مارئی کا کوئی مجنوں نہیں تھا۔ یہی سبب ہے کہ مارئی کو راون کی قید سے آزاد کروانے کے لئے کسی رام نے راون سے جنگ نہیںجیتی تھی۔ مارئی کو عمر کی قید سے چھڑانے کے لئے کسی نے کوئی جنگ نہیں لڑی تھی۔ اس لحاظ سے عمر مارئی کی کہانی میں ہیرو نہیں ملتا، مگر اس قدر مشہور لوک کہانی میں ہیرو کا ہونا ضروری ہے۔ ہیرو کے بغیر کہانی پھس پھسی لگتی ہے۔ عمر مارئی کی کہانی کسی بھی لحاظ سے رومانٹک کہانی نہیں ہے۔ اس کہانی میں مجنوں، فرہاد اور رانجھے جیسے ہیرو کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا۔ عمر مارئی کی کہانی دراصل دھرتی، اپنے وطن، وطن کے لوگوں اور رشتہ داروں سے بے پناہ محبت کی کہانی ہے۔
اس لئے اس کہانی میں روایتی مجنوں جیسا ہیرو دکھائی نہیں دیتا مگر اس کہانی میں ہیرو ہے۔ بہت بڑا ہیرو ہے۔ اس سے پہلے کہ میں گتھی سلجھائوں، میری آپ سے گزارش ہے کہ حال ہی میں ہونے والی اغوائوں کی اخباری خبروں کو پھر سے ذہن نشین کرلیں۔ اغوا کرنے والے طاقتور اوباش لڑکی کو اغوا کرلیتے ہیں۔ اسے اپنی باندی بناکر رکھتے ہیں۔ جتنا عرصہ بے بس لڑکی جابروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے، وہ اسے پامال کرتے رہتے ہیں۔ اس نوعیت کی بے رحم، شیطانی اور وحشی وارداتوں کی خبریں روزانہ اخباروں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ایسی خبریں پڑھ کر دل پسیج جاتا ہے۔ ایسے گرے ہوئے اور گھٹیا معاشرے میں رہتے ہوئے سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسی کہانیوں میں شیطانی وصف لازماً شامل ہوتا ہے۔
اس لوک کہانی میں آخرکار عمر بذات خود زبردست ہیرو بن کر ابھر آتا ہے۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کئی ایسی کہانیاں لکھی جاچکی ہیں جن میں منفی کردار، لچا، کمینہ آخرکار ہیرو میں بدل جاتا ہے اور کئی ایسی کہانیاں لکھی گئی ہیں جن میں ہیرو آخرکار بے درد کردار بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ منفی کردار بن کر کہانی پر اپنی چھاپ چھوڑ دیتا ہے۔ اگلی کسی کتھا میں ہم بیعت بدلنے والے کسی مشہور کردار کے بارے میں چھوٹی سی بحث کریں گے۔ آج کی کتھا میں ہم اپنے آپ کو عمر کی ہیئت transformation تک محدود رکھیں گے۔ مارئی ہر لحاظ سے عمر کے ہاں بے بس باندی تھی۔ عمر کے رحم و کرم پر تھی۔ عمر مطلق العنان تھا، خودسر تھا، بے انتہا طاقتور تھا، وہ چاہتا تو مارئی کو پامال کرسکتا تھا مگر عمر نے ایسا نہیں کیا۔ وہ مارئی سے منت سماجت کرتا رہا۔ گزارش کرتا رہا کہ خدارا میری گزارش قبول کرلو۔ مجھ سے شادی کرلو۔ میری منکوحہ بن کر اس ملک پر راج کرو۔ کہتے ہیں کہ کئی کئی راتیں عمر نے روتے ہوئے اور بلکتے ہوئے گزار دی تھیں۔ آدھی آدھی رات میں رب العزت سے دعائیں مانگنے بیٹھ جاتا۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے اور وہ عاجزی سے کہتا رہتا کہ میرے رب اس عورت کے دل میں میرے لئے تھوڑی سی محبت ڈال دے مگر کیا کیا جائے کہ محبت مانگے سے نہیں ملتی۔
دستور دنیا کے مطابق ہونا تو یوں چاہئے تھا کہ منتوں، گزارشوں، التجائوں، استدعائوں میں ناکام ہونے کے بعد جابر مرد، خواہشوں کا وحشی غلام عمر کے اندر جاگ اٹھتا اور وہ انتقاماً مارئی کو برباد کردیتا مگر ایسا وحشی، غیر مہذب اور جابرانہ عمل عمر مارئی کی کہانی میں ہمیں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہیں سے ہمیں غیر معمولی ہیرو ابھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ایسا ہیرو آپ کو مشکل سے کسی کہانی میں ملے گا۔ ایسا ہیرو جس کے پاس بے پناہ طاقت اور دولت ہو، ایک مجبور اور بے بس لڑکی اس کے قبضے میں ہو مگر اس نے لڑکی کو چھوا تک نہیں، آپ کو کہانیوں میں نہیں ملے گا۔ عمر مجھے بے گانہ ہیرو محسوس ہوتا ہے۔ وہ مارئی کو عزت و احترام سے اپنے گائوں اور رشتہ داروں کے ہاں چھوڑ آتا ہے مگر سندھ کے صوفی شعرا نے عمر کو نظر انداز کردیا ہے۔
اگلی کسی کہانی میں جگ مشہور ہیرو کا ذکر کروں گا جوکہ دراصل ولن ہے۔
مزید خبریں
-
ہم ہیں متجسّس کہ نیا صدر نہ جانےقوم اور وطن کے لئے اچّھا کہ بُرا ہو؟ امریکۂ اعظم کے شب و روز بدلنے ڈونلڈ ٹرمپ...
-
پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی قربانیاں اور دہشت گردی کے خلاف انکا کردار ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا سنہری باب...
-
لوگ بتاتے ہیں کہ جب میںپیدا ہوا تھا،تب مجھے دیکھنے کے بعد صدمے سے میری ماں مرگئی تھی۔ یہ سنی سنائی بات ہے ہر...
-
فلسطین، اسرائیل جنگ بندی معاہدہ یقیناً ایک پائیدار عمل کی ضمانت ہونا چاہئے، گزشتہ روز غزہ میں فلسطینی...
-
گزشتہ دنوں پشاور میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے سیاسی قائدین سے ملاقات کی ۔ جیسا کہ اس ملاقات کا مقصد اور...
-
پاکستانی عدلیہ کا یہ رجحان، نیا نہیں کہ سیاست دانوں کو تختہ مشق بنایا جائے۔ ماضی میں بھی عدلیہ کے فیصلوں نے...
-
روانڈا کا صدر تبدیل ہو تو شاید روانڈا پر بھی اثر نہ پڑے مگر جب امریکی صدر بدلتا ہے تو دنیا بدلتی ہے۔ امریکی صدر...
-
190 ملین پائونڈ کے عنوان سے معروفِ زمانہ مقدمے کا فیصلہ آگیا۔ اِس طلسمِ ہوش رُبا کا پہلا باب،...