تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ پی پی پی کو اس ملک کے فیصلہ سازوں نے صرف اس وقت اقتدار دیا جب ملک یا تو دولخت ہوچکا تھا یا پھر تباہی کے دہانے پر تھا، معیشت جب جب زندگی اور موت کی کشمکش میں نظر آئی اس ملک کے کرتا دھرتا اس بات پر متفق ہوگئے کہ ایسے وقت میں صرف پی پی پی ہی ہےجو ملک کو متحد رکھ سکتی ہے۔ پی پی پی قیادت نے ہمیشہ سمجھوتا کیا کبھی وہ اس سمجھوتے کا شکار ہوکر جیل پہنچ گئی تو کبھی اقتدار تک پہنچ گئی۔ سمجھوتا کرنا پی پی پی کی ہمیشہ مجبوری رہی ہے کیوں کہ ایک پرامن جمہوری جماعت سے دنگا فساد نہیں ہوسکتا۔ خیر پی پی پی کی تاریخ عجیب کشمکش کا شکار رہی ہے۔ جب جب پی پی پی نے ملک کے فیصلہ سازوں سے سمجھوتا کیا بدلے میں ایک نہ ایک بھٹو شہید ہوتا رہا لیکن پی پی پی قیادت نے پاکستان بچانے کی قسم کھا رکھی ہے وہ ہر بار پرانے دھوکے بھول کر آگے بڑھتی ہے۔ کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ ملک میں تصادم کی راہ نکالی گئی تو یقینی طور پر اس کا فائدہ بھارت کو ہوگا۔ کیوں کہ پاکستان دشمن سڑکوں پر خون خرابہ چاہتے ہیں جس کے راستے میں پی پی پی سب سے بڑی دیوار بن کر کھڑی ہے۔ پی پی پی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بس ایک یہ ہی پوائنٹ ہے جو دونوں کو ایک موڑ پر لا کھڑا کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پی پی پی کے مینڈیٹ پر شب خون مارنے کا سلسلہ بند کردیا جاتا لیکن ایک بار پھر لگتا یہ ہی ہے کہ پی پی پی کے ساتھ فیصلہ سازوں نے پھر ہاتھ کردیا ہے۔ کیوں کہ جس طرح سے موجودہ نگراں حکومت ن لیگ کی حمایتی بنی ہوئی ہے اس سے یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں پی پی پی کے خلاف اور ن لیگ کے حق میں کام کیا جائے گا کیوں کہ موجودہ نگراں حکومت میں شامل بیشتر وزرا نواز شریف کےساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور وزیر بننے سے پہلے شہباز شریف اور نواز شریف سے ملاقاتیں کرتے آئے ہیں اور جس طرح کے اقدامات الیکشن کمیشن آف پاکستان اٹھا رہا ہے لگتا یہ ہی کہ دال میں کچھ کالا ہے کیونکہ انتخابات کوطول دینا یا ملتوی کرنا اس وقت ن لیگ کی ہی خوائش ہے جس پر مسلسل کام کیا جارہا ہے تاکہ کسی طرح نوازشریف کو میدان میں اتارا جائے اور ان کے لئے راہ ہموار کی جائے۔ ایسے میں پی پی پی قیادت مسلسل چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ دیں کیوں کہ نگراںحکومت میں جب نواز شریف کے داست راست اور پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بطور وزیر بیٹھےنظر آئیں گے تو آنے والے انتخابات کو کون مانے گا ؟ کیا یہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری نہیں کہ ایسے تمام افراد کو کابینہ سے فارغ کردے تاکہ آنے والے انتخابات پر کوئی سوالیہ نشان نہ اٹھا سکے۔ لیکن پی پی پی قیادت کو چاہئے کہ اب کھل کر بات کرے اور ثبوتوں کے ساتھ بات کرے کہ کیسے اور کس نے کب کب اس کا کندھا استعمال کیا اور پھر پلٹ کر خبر تک نہ لی۔
گزشتہ دنوں عمران خان نے ایک شوشہ چھوڑا کہ انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف کو ایک خط ارسال کیا ہے جس پر انہیں دوران...
بتائے غیب کی باتیں کسی کوبھلا ناچیز اِس کا اہل ہے کیا ہنکائے جارہے ہیں کس طرف ہم یہ اندازہ لگانا سہل ہے کیا
پارٹی ……مبشر علی زیدیپارٹی سربراہ کے اعلامیے کے مطابق تمام شعبہ جات کے نئے عہدے دار یہ ہیں۔تمام کارکن، سوشل...
دلکش شخصیت ، بہاریہ مزاج ، زمینی روایتوں اور آفاقی قدروں کا پرچارک اشفاق حسین اردو شاعری کاایک خوبصورت...
چند برس قبل جب موسمیاتی تبدیلیوں کی بات ہوتی تھی تو ہمارے ہاں لوگ ان خدشات کو اندیشہ ہائے دوردراز قرار دیتے...
کچھ عرصے پہلے ایک خاتون برطانوی صحافی، محقق اور تاریخ دان ’’ایلائیس البینیا‘‘ نے دریائے سندھ کے بارے میں...
آج کل اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو عہدوں کے حصول اور نوکریاں بچانے کیلئے اپنے آپ کو طاقتور لوگوں کے سامنے...
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی خواہش تھی کہ وہ کراچی کی بزنس کمیونٹی کے ساتھ اُن کے مسائل پر...