نئی دہلی(کے پی آئی) عالمی شہرت یافتہ بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے اور کشمیری دانشور شیخ شوکت حسین کے خلاف غداری کے مقدمہ کی کارروائی شروع کرنے کے حکم کو سول سوسائٹی کے ارکان اور حزب اختلاف کے سیاسی رہنماں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور مودی حکومت پر اختلاف رائے کا گلا گھونٹنے کا الزام عائد کیا۔یہ ایسا اقدام ہے جسے ملک میں آزادی اظہار کیلئے تازہ ترین دھچکا قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔سینئر کانگریس رہنما سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے مقدمہ چلانے کی منظوری دینے پر دہلی کے گورنر کی مذمت کی اور کہا کہ گورنر اور ان کے آقائوں کی حکومت میں تحمل اور برداشت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ان کے بقول اگر کوئی تقریر کی جاتی ہے اور اس سے بہت سے لوگ غیر متفق ہوں تب بھی ریاست کو تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں مزید کہا کہ میں نے اس سلسلے میں 2010 میں جو کہا تھا اس پر اب بھی قائم ہوں۔ اس وقت ان کے خلاف بغاوت کے قانون کے تحت مقدمہ قائم کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اب ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ان کے بقول سپریم کورٹ نے بغاوت کے قانون کی بارہا وضاحت کی ہے۔ ایسی تقریر جس سے برارہ راست تشدد نہ بھڑکے بغاوت نہیں مانی جائے گی۔انہوں نے غداری کے قانون کے غلط استعمال کا الزام لگاتے ہوئے کہا، اب ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی منظوری دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔مصنف ہرش مندر نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا، جب تقاریر کی جاتی ہیں، چاہے دوسرے لوگ کتنے ہی اختلاف کیوں نہ کریں، ریاست کو رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ میں اظہار رائے کی آزادی اور بغاوت کے نوآبادیاتی قانون کے خلاف کھڑا ہوں۔اروندھتی رائے نے جمہوری انڈیا کے سفر کے ہر موڑ پر انصاف اور سچائی کیلئے طاقت، ہمت اور فصاحت کے ساتھ بات کی ہے۔مصنفہ مینا کنڈاسامی نے کہا، آج ان کے خلاف مقدمہ چلانے کیلئے 2010 میں کی گئی ایک تقریر کا حوالہ دینا حکومت کی مایوسی اور سچ بولنے کے خوف کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن انہیں خاموش نہیں کیا جاسکے گا۔اگر مودی ایک دہائی قبل کی گئی تقریر کی وجہ سے انڈیا کے سب سے ذہین اور بہادر مصنف کے پیچھے پڑ رہے ہیں، تو اس سے حکومت کی مایوسی کی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔پریس کلب آف انڈیا کے سابق صدر اور سینئر صحافی اوماکانت لکھیڑہ کا کہنا ہے کہ جس طرح حکومت کی جانب سے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے اس سے بھارت میں جمہوریت کمزور ہو گی۔نامورتجزیہ کار اور دہلی یونیورسٹی میں استاد ابھے کمار کا کہنا ہے کہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نے ارون دھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی جو اجازت دی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ بھی حکومت پر تنقید کرتے ہیں ان کو پریشان کیا جا رہا ہے۔وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں بہت سے صحافیوں اور کارکنوں کو جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ارون دھتی رائے کی پوری دنیا میں بڑی عزت ہے اور ان کو پڑھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ لہٰذاان کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دینے سے حکومت کی اور بدنامی ہو گی۔
باغجموں کشمیر مسلم لیگ گروپ کے مرکزی صدر سردار سجاول خان نے کہا ہے کہ حکومت آزاد کشمیر فوری طور پر مرکز ملوٹ...
ہٹیاں بالاجماعت اسلامی آزاد کشمیر جہلم ویلی کے زیر اہتمام اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے بعد...
ہٹیاں بالاآل پارٹیز الائنس نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور انکے آرمی چیف کی...
مظفرآباد مسلم کانفرنس صوبہ کے پی کے کے صدر خواجہ دلاور نے کہا ہے کہ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل اوپندر دویدی کی...
مظفر آباد سیکرٹری لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی شاہد ایوب نے کہا ہے کہ عوام کو صاف پانی کی فراہمی حکومت کی اولین...
آٹھ مقام سماجی رہنماء خالد محمود اعوان نے نیلم پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہےکہ پورے آزاد کشمیر...
میرپورآزاد کشمیر مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما وسابق ایڈمنسٹریٹر میونسپل کارپوریشن میرپور خواجہ ساجد محمود...
میرپور سجادہ نشین و مہتمم دربار عالیہ جامعہ عثمانیہ غوثیہ رکن الاسلام علامہ مولانا پیر محمد ریاض اسد نے کہا...