فلسطین پر ایک منظوم کالم

منصور آفاق
13 اکتوبر ، 2023
یہ کیسے ستم کی داستاں میرے رگ و پے میںسرایت کر گئی ہے کہ مجھے پھرمرثیہ لکھنا پڑا ہے۔نواح ِ قبلہ ِاول میں ظلمت کیا کہانی بُن رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے شایدانبیا ؑکی سرزمین ِ خاص کی قسمت میںبس لکھی ہوئی ہے خون ریزی۔مجھے اس خاک کی تاریخ کو معلوم کرنا ہے..مجھے یہ سوچنا ہے قتل و غارت کے ستارے کیوں اسی کوجنگ کا میداں بناتے ہیں ۔ یہیںسے باپ کیوںبچوں کی لاشیںاپنے ہاتھوں پر اٹھاتے ہیں ۔ یہیں پر مائوں کی قسمت میں کیوں لکھا گیا ہے کہ جواں بیٹوں کی لاشوں پر مسلسل بین کرنے ہیں ۔سوالوں کے جوابوں سے ذرا پہلے .. چلو سن لیں۔کسی ہارے ہوئے مظلوم دل سے مرثیہ خوانی...
پائے عابد میں اُدھر درد کی زنجیر بجی
میری آنکھوں میں اِدھر وقت کے زنداں اُبھرے
آب دیدہ میں فلسطین سلگ اٹھا ہے
گرم پلکوں نے دیا اور اذیّت کو فروغ
باڑ کانٹوں کی لپیٹی ہوئی انسانوں سے
چبھ رہی ہے مرے پہلو میں بڑے درد کے ساتھ
میری بدبخت نگاہوں نے ہے کیا کیا دیکھا
وہ اُدھر ظلم کے دربار میں زینب پہنچی
میری سوچوں میں اِ دھر عہد کے سلطاں اُبھرے
ذہن میں پھیل گیا قصرِ طباشیر کا خوف
قتل نامہ نیا جاری ہوا شہرِ شب سے
پھر وہ بیعت سے کسی قوم نے انکار کیا
کربلا دَہرمیں آباد ہوئی ہے پھر سے
وہ اُدھر خیمے جلائے گئے معصوموں کے
اور اِ دھر راکھ ہوئیں بستیاں بمباری سے
وہ اُدھر فوج صف آراہے یزیدیت کی
اور اِدھر آلِ نبی ؐ کی ہے نہتی امت
جنگ جاری ہے وہ ،سچائی کی جاگیر کی جنگ
کتنی صدیوں سے بپا ہے مرے شبیر کی جنگ
ہمارے عہد کے اس کربلا پراپنی مجبوری کا عالم دیکھئے کیا ہے کہ ہم مرتے ہوئوں پر بین کرنے سے گریزاں ہیں۔قلمکارو! تمہاری خامشی میں خوف ہے یا درہم و دینار کا لالچ...مگر میں اتنا کہتا ہوں کہ یہ نفرت کے قابل ہے..قلم کو جو پکڑتی ہیں وہ تینوں انگلیاںبہتر ہے کٹ جائیںکہ سچائی نہیں لکھتیں... حسین ابن علی کے مرثیہ خوانو..لکھو جلتے گھروں کے مرثیے لکھو۔لہو لتھڑے سروں کے مرثیے لکھو..لکھو کہ کربلاغاصب کی بیعت کر نہیں سکتی۔لکھو شبیر کا جو ماننے والا ہے وہ توپوں بموںسے ڈر نہیں سکتا۔لکھو کچھ تو لکھو کہ فاختائیں خون میں ڈوبی ہوئی ہیں۔لکھو کچھ تو لکھو کس نے یہاں زیتون کی ٹہنی سے بم باندھا ہوا ہے۔لکھو کچھ امنِ عالم کی تمنا میں ۔اُفق پر شام کی سرخی کسی سفاک شب کی پھر بشارت دے رہی ہے۔
انہیں آواز دیتا ہوں جو انسانی سروں کی حرمتوں کے گیت لکھتے ہیں۔جو تہذیبوں کے حامل ہیں۔جہاں مرتی ہوئی بلی پہ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔وہ جن کے دل دھڑکتے ہیں۔انہیں آواز دیتا ہوں۔لکھو کچھ تویہ کیسی بد نما تہذیب دنیا پر مسلط ہوتی جاتی ہے۔جو کالے سونے کی خواہش میں انسانی سروں کو روندتی جاتی ہے ٹینکوں سے...لکھو کچھ تو لکھو کہ یہ قلم پامال کر سکتا ہے شانِ کجکلاہی کو.. ہلا سکتا ہے اپنی جنبشوں سے تخت ِ شاہی کو...قلم تو کھیل سکتا ہے شہنشاہوں کے تاجوں سے .. جفا کی آمریت سے ستم کے سامراجوں سے ...انہیں آواز دیتا ہوں جنہوں نے امن کے نوبل پرائز اپنے سینے پر سجائے ہیں۔کوئی توبے گناہوں کے لہو آشام موسم پر ذرا بولے..چلو دھیمے سروں میں ہی سہی...آواز تو آئے..مگر یہ امن کے پیغام براپنے خدائے ظلم کی ناراضی سے سہم جاتے ہیں۔ خدائے ظلم کے باغی قبیلوں کو سلام...
انہیں آواز دیتا ہوں محبت کے جو نغمے گنگناتے ہیں۔ مسیحا کے جو وارث ہیں۔مسیحا جس نے مُردوں کو دوبارہ زندگی بخشی ۔کسی کو قتل کرنا اس کے مذہب میں روا ہو ہی نہیں سکتا۔مسیحا جوفروغِ عشقِ انساں میں صلیبوں پر سجا تھا...جو امن و آشتی کے باب میںاتنازیادہ صبر والا تھا۔کہ کہتا تھاتمہارے دائیں عارض پراگر تھپڑ کوئی مارے تو تم اس کی طرف چپ چاپ بایاں گال بھی کردو..لکھو کچھ ابن ِ مریم کو خدائے لم یزل کوکچھ نہ کچھ
اے ماننے والو!کہ انسانوں کو جرم ِ بے گناہی کی سزائیںمل رہی ہیں۔انہیں آواز دیتا ہوں۔جو کہتے ہیں محبت کا ہے ایماں بجلیوں پر مسکرادینا ..محبت کا ہے مذہب آگ پانی میں لگا دینا۔محبت ہونکتے شعلوں کو سینے سے لگاتی ہے ۔ محبت آتشِ نمرودمیں بھی کود جاتی ہے۔انہیں آواز دیتا ہوں ۔اُٹھو اِس کربلا کی آگ پر پانی نہیں آنسو ہی برسا دو...
اُسے آواز دیتاہوں کہ شاید انجمن اقوامِ ِعالم نیند سے جاگے..مگر کیسے...اسے توظلمتوں کے تازہ رکھوالے نے اپنے گھر میں لونڈی کی طرح رکھا ہوا ہے۔کسی مالک کو اس کی ایک معمولی کنیز آخر کہاں تک روک سکتی ہے...اُسے آواز دینا خود فریبی کا تسلسل ہے۔مگر ہر ڈوبنے والاسہارے کیلئے تنکے پکڑتا آرہا ہے۔
انہیں آواز دیتا ہوں جو خود کو خادمِ الحرمین کہتے ہیں۔مگر اِن بادشاہوں کو رسولؐ ِ اقدس و اعظم کے متوالوں کی چیخیںتک سنائی ہی نہیں دیتیں...
کسے آواز دوں کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا.. کہوں کس کو کہ ظالم کے پکڑ لے ہاتھ کو جا کر...ستم کی آخری حد ہے۔ کہیں دنیا یہ کانٹوں سے بھری وادی نہ بن جائے۔ مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ ہراک پھول کو کھلنے کا حق ہے.. یہ آزادی ہے خوشبو کی کہ ہرگلشن کو مہکائے... طلوعِ صبح کا منظر ہے ہر اِک آنکھ کی خاطر.. ہوا ہر شخص کوسانسیں فراہم کرتی رہتی ہے ۔جہاں میں ہر کسی کوپورا حق ہے اپنی مرضی کے مطابق زندگانی بسر کرنے کا...جنم جن کو دیا آزاد مائوں نے .. انہیں طوق ِ غلامی کوئی پہنا ہی نہیں سکتا..مری اتنی دعا ہے بس ..زمیں پر امن کی تہذیب غالب ہو۔سیہ توپوں کے تیرہ تر دہانوں میں ملائم فاختائوں کا بسیرا ہو.. کوئی زیتون کی ٹہنی کہیں بمبار طیاروں میں اُگ آئے۔اگر چہ ایسا ہوتا تو نہیں لیکن خدا کے کار خانے میںکبھی یہ ہو بھی سکتا ہے.. خدا تو پھر خدا ہے نا...