1960اور 70کی دہائی میں پاکستان معاشی طور پر بہت ترقی کر رہا تھا اور 1965 میں پاکستان نے جرمنی کو 25ملین ڈالر قرض بھی دیا تھا جب ملک کے سربراہ جنرل ایوب خان تھے۔ 60کی دہائی میں ایک وقت جب راقم برطانیہ آیا تو 14روپے کا برطانوی پائونڈ تھا مگر پچھلے30/35برس سے پاکستان سیاسی اور معاشی بحرانوں کا شکار ہے، سیاسی بحران ہو تو معاشی ترقی ناممکن ہے، ایک ڈالر 300کے قریب پاکستانی روپے کا ہے، شرم کا مقام ہے کہ آج پاکستان معاشی طور پر بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھی بہت پیچھے ہے۔ ہمارے سابقہ حکمرانوں نے لندن اور دبئی میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، اپنے محلات میں بیٹھ کر عیاشیاں کر رہےہیں، مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے، بجلی، پٹرول، گیس، خوردو نوش کی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کی نیندیں حرام کر دی ہیں، لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی اقتصادی گروتھ سے دوگنی بڑھ رہی ہے، لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، موسمی تبدیلیوں کا گہرا اثر پاکستان پر پڑ رہا ہے، دہشت گردی نے پھر سر اٹھا لیا ہے، بد عنوانی ملک کا کلچر بن چکی ہے، مہنگائی کے خلاف عوام سڑکوں پر آگئےہیں، ملک میں اس وقت نگران حکومت قائم ہے جو 90دن میں انتخابات کرانے کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے مگر ملک کے موجودہ آرمی چیف جنرل آصف منیر نے ملک کی سنگین اقتصادی صورتحال کے پیش نظر نگران حکومت کے ساتھ مل کر کرپشن، سمگلنگ، مہنگائی کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ملوث افراد کے خلاف ایکشن لینا شروع کر دیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی استحکام اور امن و امان کے بغیر معاشی ترقی کرنا ناممکن ہے، نئے آرمی چیف اور نئے نگران وزیراعظم اگر نیک نیتی سے ملک و قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے احتساب ہونا چاہئے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے لئے اقدامات اٹھانے ہوں گے اور سب سے پہلے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالا جائے خواہ اس کی زد میں کوئی بڑا فوجی، سیاستدان، بیوروکریٹ، جج، وکیل یا کوئی اور آئے بلاامتیاز سب کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہئے اگر اسی نظام میں نئے انتخابات ہوں گے تو پھر یہی آزمائے ہوئے حکمران اقتدار پر قابض ہو جائیں گے اور ہارنے والے دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیں گے تو ایسے حالات میں خاک ترقی ہوگی، ملک میں ایک نیا بحران پیدا ہو جائے گا۔ عوام کے اندر شعور بیدار کرنا ہوگا ان کو تعلیم سے روشناس کراناہوگا تاکہ لوگ اچھے اور برے حکمران میں تمیز کر سکیں اور فقط کھوکھلے نعروں سے متاثر ہوکر ووٹ ضائع نہ کریں، قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال اس ملک میں اقتصادی بحران اخلاقی بحران کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ہر کوئی آنے والا اپنی جیب بھرنے کی فکر میں ہوتا ہے، ملک و قوم کی بھلائی کرنے والے پیدا کرنے ہوں گے، ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہے ملک اور قوم کیلئے ہر کوئی اپنا کردار ادا کرے، ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز نہ اٹھانے والا اتنا ہی قصوروار ہوتا ہے جتنا قصور وار ظلم اور ناانصافی کرنے والا ہوتا ہے، قومیں اجتماعی جدوجہد سے ترقی کرتی ہیں اور سربلند ہوتیہ یں آج کا دور اقتصادیات کا دور ہے ترقی یافتہ ممالک دنیا پر راج کر رہےہیں ، ہم ایٹمی طاقت ہوکر بھی کشکول اٹھائے پھرتے ہیں۔
مہنگائی اور غربت و افلاس کا ہے زورکیا داستاں بیان کریں ہم عوام کیاِس حال میں ہمیں یہ خوشی ہے کہ کم سے کم تنخواہ...
اس سلسلے میں اب کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ جس طرح غیرآئینی اور غیر قانونی طورپر پورے جبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے...
ہم سب اکثر بھول جاتے ہیں کہ ہم سب اپنی اپنی پابندیاں اور حد بندیاں لیکر پیدا ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنی حدود سے واقف...
دہشت گردانہ حملوں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام اخلاقی اور شرعی ہر اعتبار سے ناقابلِ...
اسلام آباد ہائیکورٹ پر ایک عرصے سے جلالی کیفیت طاری ہے۔ اِس کیفیت کا ارتعاش، شہرۂِ آفاق...
پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کبھی اپنی مسابقتی قیمتوں کی وجہ سے بین الاقوامی خریداروں کیلئے سب سے پہلا انتخاب...
میرا خیال تھا کہ ایک کالم کافی ہے مگر جنگ کے قارئین کی فرمائش ہے کہ حافظ حسین احمد کی بہت سی اور باتیں ہیں، وہ...
بانی پاکستان و بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے 11اگست 1947ءکو کراچی میں پہلی ملکی دستور ساز اسمبلی سے...