نواز شریف ،بلاول ،مولانا فضل الرحمٰن سیاسی پارٹیاں ملک بچائیں، آئین کی بالا دستی ،جمہور کی حکمرانی پر سمجھوتہ نہیں کرینگے، محمود اچکزئی

03 دسمبر ، 2023

کوئٹہ ( پ ر) پشتونخوا وطن اور برصغیر پاک وہند کے آزادی کے عظیم سالار خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی شہادت کی 50ویں برسی ایوب سٹیڈیم میں عظیم الشان جلسہ میں اُن کی سیاسی ، قومی ،صحافتی ، ادبی اور علمی خدمات پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔ اجتماع کی صدارت ملی مشر اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کی ۔ محمود خان اچکزئی نے پارٹی ضلع کوئٹہ ، جنوبی پشتونخوا کے سیاسی کارکنوں اور کوئٹہ کے شہریوں کی بڑی تعداد میں شرکت پر اُن کا شکریہ اداکیا ۔ محمود خان اچکزئی نے میڈیا کے پرسنز اور مختلف اخباروں کے نمائندوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ خان شہید کے دن کی مناسبت سے بعض اخبارات نے اُن کے صرف ایک دو مضامین چھاپے ہیں جن اخبارات نے خصوصی ایڈیشنز شائع کیئے اُن کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور جن اخبارات نے خان شہید کے دن کی مناسبت سے مضامین نہیں چھاپے اُن کے اس رویہ پر ہم سوچیں گے کہ آئندہ پارٹی کا اُن کے ساتھ کیا رویہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سچ یہ ہے کہ 75سال میں پاکستان کو چلانے والوں نے ملک کو ایک پاکستانی قومیت نہیں دی ، اس ملک کو نو، دس سال تک صر ف اس لئے بے آئین رکھا گیا کہ بالخصوص پنجاب کی جوڈیشری اور انتظامیہ سیاسی لوگ حتیٰ کہ اداروں کی غلط سوچ نے آئین بننے نہیں دیا کہ پنجاب کی آبادی کو کیسے کنٹرول کیا جائے، پھر جس انداز میں مدتوں کے بنے ہوئے صوبے ہمارے ایک بہت بڑے پشتون سیاستدان کو معمولی مراعات کے بدلے میں سارے صوبے ضم کرکے ون یونٹ کی تشکیل اور پیرٹی کی بنیاد پر بنگال کی 54فیصد آبادی اور ہماری 46فیصد آباد کی برابری کا اعلان کیا گیا ۔ خان شہید نے 1956ء میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ اپنی قوم کو دوسروں کی بڑی آبادی سے بچانا یا ان کے مفادات کا خیال کرنا کہ اپنی قوم کو دوسروں کی بڑی آبادی سے بچانا یا ان کے مفادات کا خیال کرنا کیا یہ عیاشی صرف بنگال اور پنجاب کیلئے ہونی چاہیے تھی؟ یا ہم غریب قومیتوں کیلئے بھی کچھ رکھنا یا کرنا ہوگا۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ملک میں انصاف کا بول بالا کرنا ہوگا۔ جس میں آئین کی بالادستی قائم کرنی ہوگی وار ملک کی منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوگا۔ اور ملک کی داخلہ وخارجہ پالیسیوں کی تشکیل عوام کی منتخب پارلیمنٹ سے ہوگی۔ محمو خان اچکزئی نے سیاسی اتحاد PDMکے حوالے سے کہا کہ بڑی مشکل سے اتحاد کی تشکیل ہوئی تھی جس پر پارٹیوں کے سربراہوں نے دستخط کیئے تھے وہ پتہ نہیں کیوں عمران خان کی دشمنی میں اس حد تک چلی گئی کہ اس کا ایک لیڈر کہتا ہے کہ میں 30سال سے سٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہوں یہ شرم کی بات ہے ایک ایسا آدمی جس نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اعلامیے پر دستخط کیئے ہیں اور اس کا تیسرا اور چوتھا نقطہ یہ ہے کہ جس طرح دنیا کی ادراے سیاست سے دور رکھے گئے ہیں یہ بھی دور رہیں گے۔ میں کیا کہوں اس پر بعد میں بات کرینگے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پشتونخواملی عوامی پارٹی نے اور کوئی کمال نہیں کیا ہے ۔ جب میاں محمد نواز شریف ایک غلط راستے پر تھے اور انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد جس میں ہماری بلوچستان اور پشتونخوا وطن کے بڑے اکابرین سارے شامل تھے ہم پارلیمنٹ میں نہیں تھے ، بینظیر کی حکومت کے خلاف انہوں نے آئی جی آئی بنائی ،اس وقت پشتونخوا میپ واحد پارٹی تھی جس نے نواز شریف اور آئی جی آئی کے اکابرین جس میں پشتون بلوچ سندھی بھی تھے ہم نے میاں نواز شریف کاسیاہ جھنڈوں سے استقبال کیا تھا۔ ہماری نواز شریف کی ذات اور آئی جی آئی سے دشمنی نہیں تھی ۔ ہمیں جمہوریت اور ملک میں جمہوری نظام عزیز تھا اور آئی جی آئی اتحاد ملک ڈبونے کا عمل تھا ، اور اس ملک کے بڑے رقبے پر پشتون زندگی گزار رہا ہے ،یہاں ہمارے مساجد اورقبرستان ہیں ، ہم نے کبھی غلط سیاسی روش نہیں اپنائی ۔ ہم انگریزی دور حکومت ہو یا پاکستان کی حکومت میں ہمارے اکابرین نے سینکڑوں سال قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔( پشتون اپنے آبائی وطن پر پر افتخار زندگی گزار رہا ہے ) ۔ پاکستان میں ہمارے اکابرین کو صرف اس لیئے جیلوں میں رکھا کہ انہوں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر منتخب پارلیمنٹ ہو ، یہاں پر ایف سی آر کا قانون تھا ، کوئی مائی کا لعل بول نہیں سکتا تھا پاکستان کسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا ، 1929میں عبدالصمد خان اچکزئی جو اپنے آپ کو ایک بیوہ کا یتیم بچہ کہتا تھا انہوں نے کسی یونیورسٹی سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی ۔ وہ بڑے دینی عالموں کی سربراہی میں اپنے گھر میں پلا اور پڑھا تھا ، انہوں نے نہ کبھی کسی سیاسی پارٹی کو دیکھا تھا نہ کسی لیڈر سے ملاقات کی تھی وہ اپنی سرنوشت میں لکھتے ہیں کہ جب گھر کی ذمہ داریوں سے نکلا یہاں پھر اور لکھتا ہے کہ میں نے پشتونوں کی جو بربادی دیکھی مشکلات دیکھی میں ذاتی طور پر اس نتیجے پر پہنچا کہ پشتونوں کی یا بلوچوں کی یا ہمارے ہندوستان کے عوام کی بربادی کی اصل وجہ خارجی حکمران ہیں اور لکھتا ہے کہ میں نے اپنے ساتھ دو وعدے کیئے تھے کہ ایک انگریزی سرکار کی ملازمت نہیں کرنی اور دوئم اپنے سیاسی مقاصد حصول کیلئے کام کرونگا ۔ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کے سیاسی مقاصد میں انٹی سامراج ، انٹی فیوڈل اور جمہوریت پسندی جس پر ہمیں جیلوں میں ڈالا گیا ، جمہوریت ، ون مین ون ووٹ اور عوام کی منتخب پارلیمنٹ کی بات کی تھی اس وقت خان شہید کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جسے خان شہید نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہمیں خان شہید کے بیٹوں اور تمام خاندان کو سی آئی ڈی کی معرفت سے انہیں خط لکھنا ہوتا تھا اور اسی طرح اسے بھی سی آئی ڈی کی معرفت خط بھجوانا ہوتا تھا اور ہمیں جمہوریت کیلئے یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑا اس لیئے ہمیں جمہوریت عزیز ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں آئین کی بالادستی ، پارلیمنٹ کی خودمختاری ، جمہور کی حکمرانی پر کسی سے سمجھوتہ نہیں کرینگے، ہم ان لوگوں سے کہتے ہیں جو یہ کہتے ہیں ہمیں پاکستان عزیز اور یقیناً عزیز ہوگا تو انہیں الیکشن سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کی کانفرنس بُلائی جائے جس میں ملک کے سیاسی ، عدلیہ ، انتظامیہ ، ادارے ، میڈیا ، تاجروں کے نمائندوں اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے نمائندے شامل ہو ہیں کم از کم تین روزہ کانفرنس ہو جس میں ملک کے مسائل پر بحث اور ملک چلانے کے طریقہ طے کرکے الیکشن پر جانا ہوگا۔ اور الیکشن کی شفافیت کو گارنٹڈ بنانا ہوگا جو کہا اورسنا جارہا ہے اس سے الیکشن کی شفافیت مشکوک ہوجاتی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میں نواز شریف ، بلاول ، مولانا فضل الرحمٰن اور تمام سیاسی پارٹیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا کیلئے اس ملک کو بچائیں اس کا واحد راستہ اور علاج یہاں ایک آئینی حکمرانی ہے پاکستان بحران میں گر چکا ہے ، ہم پاگل نہیں ہیں کہ خدانخواستہ یہ کہہ دیں کہ کسی کو پھانسی ہو لیکن تمام پارٹیوں سے جس میں جمعیت علماء اسلام جو میری سب سے نزدیکی پارٹی ہے، انہوں نے عوام کے ساتھ یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ جن ججوں نے پہلے مارشلاء سے لیکر آخری مارشل لاء تک صرف آئین کے تحفظ کی خاطر اپنی نوکریوں کو ٹھوکر ماری یا ان کو نوکریوں سے نکالا گیا پارٹی وعدہ کریں کہ جب بھی پارلیمنٹ بنی یہ مشترکہ قرار داد پیش کریگی کہ جو جج پہلے ،دوسرے ، تیسرے اور چوتھے مارشلاء میں نکالے گئے ہیں ان کو ہیروز آف ڈیموکریسی ،آئین کے ہیروز ڈکلیئر کیئے جائیں ان کے بچوں کو وہ تمام مراعات دی جائیں جو ان سے چھینی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن ججوں نے جرنیلوں کا مارشلائوں میں ساتھ دیا تھا اُن کا میں تو زیادہ نہیں کہہ سکتا کم سے کم ان کو نوکریوں سے فارغ کردیا جائے ، ان کی تصاویرہائیکورٹ ، سپریم کورٹ سے ہٹا دی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف کو تجویز دے سکتے ہیں ، پشتونخوا وطن کے لوگوں کو تمام پارٹیوں کو یہ متفقہ اعلان کرنا چاہیے کہ پاکستان نے جو قرضے لیئے ہیں آئی ایم ایف سے اس کا کچھ حصہ اگر ہمارے خطوں میں صرف ہوا ہے اس کے علاوہ ہم ایک روپیہ بھی نہیں دینگے۔ پیسے آپ ہڑپ کرینگے اور قرضے ہم دینگے۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ پشتون اپنی تاریخ کے مشکل دور میں ہے ، بہت بُرا وقت ہے پشتونوں کیلئے بہت بڑے تماشے بنے ہیں یہ باتیں جذبات سے نہیں ہوش سے کرنے ہونگے کہ یہ ڈیورنڈ خط ایسا اور ویسا ہے ۔ یہ باتیں احتیاط کے ساتھ کرنی ہونگی ۔ ہم نہ کسی سے خیرات چاہتے ہیں اور نہ ہی زکوۃ ۔ ایک ڈیورنڈ خط ہے جس کی لکیر واضح ہے میرے ماننے سے یہ نہیں مانا جائیگا اور نہ آپ کے ماننے سے یہ ختم ہوگی ۔ لیکن ڈیورنڈ لائن پر گھروں کے سامنے تین ہزار کلو میٹر تار لگایا گیا ہے اب ہمیں راستہ دینا ہوگا اس تار کے اُس پار ہماری ہزاروں ایکڑ زمین ہے ، زمینداری ہے ، قبرستان ہے وہاں یہ کیسے جاسکتے ہیں ؟ اس لیئے چمن کا پرلت بیٹھا ہوا ہے ۔ ہم اس ملک کے رہنے والے ہیں، پشتونخواوطن کی سرزمین کی ایک ایک فٹ تقسیم ہے یہاں بغیر مالک کی زمین نہیں ہے، ہر کسی کی زمین میں جو بھی ذخیرہ پیدا ہوا ہو اس قبیلے کے لوگوں کے ساتھ مل بیٹھ کر تقسیم کریں ہم مسافری اور غربت کی زندگی سے نکل سکیں گے اور آپ اسلحے خرید لوگے یہ نہیں ہوسکتا کہ سرزمین ہماری ہوگی اور اختیار آپکا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دو برادر اسلامی ممالک ہیں ان کے درمیان بدی کی کوئی گنجائش نہیں ، افغان باشندے یہاں اور پاکستانی وہاں ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ہم ایک دوسرے کے ملکوں میں رہے پھرے ہیں ہمارا نفع نقصان شریک ہے ۔ محمو د خان اچکزئی نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے درخواست کرتے ہیں کہ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں اور افغانستان کے متصل تمام ہمسایہ ممالک کی ایک کانفرنس بلائی جائے جس میں افغانستان سے ہمسایوں کے خدشات اور افغانستان کے اپنے ہمسایوں سے خدشات پر سیر حاصل گفتگو ہو اور نتیجے میں ایک ایسا معاہدہ تشکیل پائے کہ سارے ممالک ایک دوسرے کی استقلال اور آزادی کے احترام اوراندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے پابند ہوں ، اس معاہدے کی ضامن اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے تمام رکن ممالک ہوںیہ واحد راستہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پرلت اس عوام کی بنیاد ی انسانی حق ہے ،مولانا صاحب اور چند اکابرین سے ہم نے بات کی ہے آج ایک بات یہ آئی کہ مولانا صاحب اور آرمی چیف کی ملاقات ہوئی ہے میں نہیں جانتا کیا بات چیت ہوئی ہے لیکن اس وقت تک جب مولانا صاحب سراج الحق اور دیگر سیاسی لوگوں کے ساتھ ہماری ملاقات ہوگی ان کے ساتھ بات ہوگی تب کوئی فیصلہ کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بڑی باتیں نہیں کرسکتے لیکن کسی اور نے چمن پرلت کی حمایت کرنی تھی یا نہیں پشتونخواملی عوامی پارٹی ہر حال میں کریگی ۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ بیش میں جو منڈیاں بنی ہوئی ہیں یہ ساری چمن کے لوگوں کی زمینوں پر بنائی گئی ہیں وہاں لوگ کاروبار کیلئے جاتے ہیں شام کو واپس اپنے گھروں میں آتے ہیں اس پر پاسپورٹ کسی صورت نہیں مانتے ، لائن پہلے بھی تھی لوگ آتے جاتے رہتے تھے اور ابھی جو تار لگائی گئی ہے اس پر ہمیں مجبور نہ کیا جائے۔ ہماری افغانستان کے ساتھ آٹھ جگہوں پر راستے ہیں ان آٹھ جگہوںپر جو ٹیکس پاکستان کسٹم اور دیگر ادارے کراچی میں لیتے ہیں وہی تورخم ، انگور اڈہ ، بل مل بنوں ، خوست ، قمر الدین اور ہر جگہ پر دینے کو تیار ہیں ایک بار تلاشی لی جائے پھر ہر روز ہر جگہ پشتون کاروباریوں کو تنگ نہ کیا جائے ۔ آج بھی ملک کے تمام شہروں میں صرف پشتونوں کے کاروبار پر چھاے مارے جارہے ہیں ۔ کراچی لاہور میں پشتونوں کے کاروباروں پر چھاپے نامنظور ہیں ۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ بنوں جرگہ کے فیصلے ہماری قوم کیلئے ہماری کانگرنس ہے ۔ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ ہر شہری کو ملک کے کسی بھی کونے میں کاروبار اور ہائش کا حق حاصل ہے ۔ بنوں جرگے کے فیصلے ہمارے قوم کے قومی اسمبلی کی طرح ہے ۔ پشتونوں کے پانیوں ، تور غر ، چارسرے اور دیگر تمام مسائل کیلئے ہماری بات نہ مانی گئی تو اپنی جرگوں سمیت عالمی عدالتوں میں جائینگے کہ ہماری زمین یہاں قبرستان وہاں ہے اب ہمیں نہیں چھوڑا جارہا اور پشتونوں پر دہشتگردی کے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔ پشتون دہشتگرد نہیں پشتون وطن دوست ہیں ۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہرجگہ انسانی حقوق کی باتیں ہورہی ہیں شرم کرنی چاہیے عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ میرا دوست تھا پھر غلط راستے پر چلا، عمران خان کے ساتھ اختلافات اپنی جگہ پاکستان کے تمام ادارے مضبوط ادارے ہیں جب عمران خان کو وزیر اعظم بنایا جارہا تھا تو کیا آپ لوگوں کو پتہ نہیں تھا ۔ ہم پاکستان کے حکمرانوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ جس پربھی کوئی کیس ہے انہیں گرفتار کرکے عدالتوں کے سامنے لائیں یہ طریقہ ٹھیک نہیں کہ گھروں میں داخل ہوکر کسی کے بھائیوں ، بہنوں ، بیٹوں کو اُٹھا کر لیجائو یہ قابل قبول نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سننے میں آئی ہے کہ کوئٹہ کو 6زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس پر گھر گھر کی تلاشی لے جائے گی پتہ نہیں انہیں کیا چائیے۔ اگر بندوق، کارتوس، پستول دیکھ رہے ہیں تو آخر کس لئے گھر کے مالک کو چھری پسٹل سے محروم کرکے چوروں ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑو گے۔ ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ تو بندوق ہونگی لیکن شریف شہریوں کو اپنی حفاظت خود کرنے سے محروم کردوگے۔