اسٹیبلشمنٹ حقیقت، 18 ویں ترمیم ختم کرنے کا مقصد اسلام آباد کو اختیار دینا، پیپلز پارٹی

03 دسمبر ، 2023

کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے لئے ہی نہیں بلکہ سب کے لئے لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتی ہے ، حالات جیسے بھی ہوں ہم ہر پچ پر کھیلنا جانتے ہیں ، 8 فروری کو پورے ملک میں بڑا سرپرائز دیں گے، نفرت اور تقسیم کی سیاست پاکستان کے مفاد میں نہیں ، چاہتے ہیں، ملک کے تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں ، تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان طویل المدتی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے ،پیپلز پارٹی اقتدار میں آکر ٹرؤتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن بنائے گی جس سے ملک کے تمام مسئلے حل ہوں گے اور آگے بڑھیں گے ۔ عمران خان نے کبھی اپنی سیاسی ذمہ داری نہیں نبھائی ، رائے ونڈ کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ان کے حق میں ہوا بنائی جائے مگر وہ بن نہیں پا رہی جن کو تاریخ میں پہلی بار لاہور میں پھولوں کے بجائے انڈے اور ٹماٹروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ سندھ بلوچستان کے بجائے اپنا گھر بچانے کی کوشش کررہے ہیں ، میاں محمد نواز شریف اپنے نظریے پر الیکشن لڑیں اور ووٹ کو بے عزت کرنے کی بجائے عزت دلائیں ۔ 18 ویں ترمیم کا خاتمہ ملک و وفاق کے لئے خطرناک سوچ ہے ۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بات چیت کی گنجائش رکھنی چاہئے ، طالبان کو بھی اپنا طرز تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ نے موقع دیا تو بلوچستان کے عوام کے مسائل حل اور زخموں پر مرہم رکھیں گے ۔ یہ بات انہوں نے ہفتہ کو کوئٹہ میں پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر میر چنگیز جمالی کی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ، اس موقع پر سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری ، روزی خان کاکڑ ، میر صادق عمرانی ، سردار سربلند جوگیزئی ، حاجی علی مدد جتک ، سردار عمر گورگیج ، شرجیل انعام میمن ، جنرل عبدالقادر بلوچ سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔ بلا ول بھٹو زرداری نے کہا کہ بلوچستان کی پیپلز پارٹی کے ساتھ گہری تاریخ رہی ہے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بلو چستان کو صوبہ بنایا اور آصف علی زرداری نے 18 ویں ترمیم ، این ایف سی ایوارڈ ، آغاز حقوق بلوچستان ، صوبائی خودمختاری ، وسائل پر ملکیت دی اور مسائل کو حل کر نے کی کوشش کی ، صدر آصف علی زرداری نے پسماندہ علاقوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے پاک ایران گیس پائپ لائن ، گوادر پورٹ اور سی پیک کی بنیاد رکھی ، سی پیک کو جس روٹ سے شروع ہونا چاہیے تھا اس سے شروع نہیں ہوا اس منصوبے کی کامیابی پاکستان کی معیشت سے جڑی ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ بہت ظلم ہوتا رہا ہے، صدر آصف علی زرداری نے بلوچستان کے عوام سے معافی مانگ کر 18 ویں ترمیم منظور کراکے صوبے کو اس کے اختیارات دلائے، این ایف سی ایوارڈ دیا ، اب اگر اللہ نے موقع دیا تو ہم بلوچستان کے عوام کے مسائل حل اور زخموں پر مرہم رکھیں گے اور یہ کام ہم کرسکتے ہیں اور یہ مشکل نہیں بلوچستان کے عوام کو ریاست میں شراکت دار بنانا ہوگا ۔ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے جدوجہد جاری رہے گی اور پیپلز پارٹی ہی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے بلوچستان میں حکومت بنائے گی تاکہ بلوچستان کے عوام کی آواز بن سکیں ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہر انتخابات میں چند لوگ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا بہترین جواب عوام خود ہی دئے سکتے ہیں اور بلوچستان کے عوام نے دکھا دیا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں ، پیپلز پارٹی اوراس کے قائدین جانتے ہیں کہ الیکشن کیسے لڑتے اور جیتے ہیں ۔ جب سے میاں نواز شریف واپس آئے ہیں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے لیکن ہمارے جلسے سے مسلم لیگ (ن) کے بیانیے کو دھچکا لگا ہے ہم چاہتے ہیں ملک کے تمام ادارے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کریں ۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ ہواؤں کا رخ ایسے بنتا ہے کہ آپ بادشاہ کی طرح آئیں آپ کے دربار میں سب پیش ہوں اور ہوا بن جاتی اور انتخابات ہوجاتے ہیں ہم سمجھتے ہیں ہوا کا رخ عوام بناتے اور راستہ دکھاتے ہیں جب عوام فیصلہ کرتے ہیں تو چاہے الیکٹ ایبلز ہوں یا دوسرے لوگ انہیں مجبور ہوکر عوام کا فیصلہ ماننا پڑتا ہے ہماری حکمت عملی بھی یہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے عوام کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر ، اس وقت سندھ کے عوام پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں ، رائے ونڈ کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ہوا بنائی جائے مگر وہ بن نہیں پارہی جن لوگوں کو تاریخ میں پہلی بار لاہور میں پھولوں کے بجائے انڈے اور ٹماٹروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ میرا خیال میں سندھ اور بلوچستان کے لئے اتنے فکر مند نہیں جتنے وہ اپنے گھر کے لئے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ دنیا بھر میں ایک حقیقت ہے میں چاہتا ہوں کہ ہم مزاحتمی سیاست کے بجائے اتفاق پیدا کریں اور تمام سیاسی جماعتیں اور اداروں کے درمیان طویل المدتی اتفاق رائے پیدا کر یں یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ 2018 میں پورے پاکستان کو بتایا جائے کہ عمران خان قوم کا مسیحا ہے اور باقی سب گندے ہیں یا 2023 میں کسی اور کو فرشتہ بناکر پیش کیا جائے دن کے 24 گھنٹے میں ہر ایک سے لڑنہیں سکتے ہم 24 گھنٹے عوام کی خدمت کرنے کو ترجیح دیں پاکستان بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اصل مسئلہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنا ہے اور اس کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنانی ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پورے ملک اور اداروں کو ساتھ لیکر چل سکتی ہے خدا نخواستہ مسلم لیگ (ن) یا عمران کی حکومت بنی تو وہ ایک بار پھر انتقام کی سیاست کریں گے عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے ایک ہی راستہ ہے وہ پیپلز پارٹی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا تاریخی مطالبہ رہا ہے کہ صاف شفاف انتخابات کرائے جائیں ، پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جو اپنے لئے ہی نہیں بلکہ سب کے لئے لیول پلینگ فیلڈ مانگتی ہے ، بلوچستان کے الیکشن سب کے سامنے ہیں کہ ہمیں لیول پلینگ الیکشن ملا یا نہیں ؟ حالات جیسے بھی ہوں ہم ہر پچ پر کھیلنا جانتے ہیں 8 فروری کو پورئے ملک میں بڑا سرپرائز دیں گے ۔ آئندہ عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے دلوں میں پیپلز پارٹی کے وہ جیالے ہیں جنہوں نے پیپلز پارٹی کا مشکل حالات میں ساتھ دیا اور قربانیاں دیں ، ہر صورت الیکشن میں کا میابی حاصل کرکے عوام اور اپنے جیالوں کی خدمت کریں گے ۔انہو ں نے کہا کہ جمہوری نظام میں اپنے ارکان کو ساتھ رکھنا ہوتا ہے عمران خان نے اپنے پارلیمنٹ کے تمام امور آئی ایس آئی کے سپرد کردیئے تھے بل، بجٹ ، ممبران لانے میں ادارئے کا کردار تھا عمران خان نے کبھی اپنی سیاسی ذمہ داری نہیں نبھائی اگر وہ اپنے بل بوتے پر سیاست کرنے کو تیار نہیں تو وہ رو بھی نہیں سکتے کہ کیوں نکالا اور یہی بات میاں نواز شریف کے لئے بھی ہے ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم سب پاکستانی ہیں بلوچستان میں ناراض لوگوں سے مفاہمت کریں گے مگر جو لوگ دہشت گردی او سنگین جرائم میں ملوث ہیں ان سے بات چیت نہیں کی جائے گی وہ عدالت کا سامنا کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کا مسئلہ کافی پیچیدہ ہے قانون پر عملدآمد کرنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہے اس کے طریقے ہیں پیپلز پارٹی نے ہمیشہ انسانی حقوق کی بات کی ہے بہتر یہی ہوتا کہ نگراں حکومت معاشرے ، متاثرین سمیت دیگر شراکت داروں سے اتفاق رائے پیدا کرتی تو فیصلہ پر بہتر انداز میں عملدآمد ہوسکتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں بہت سے مسائل ہیں ہم نے اپنے دور میں کوشش کی کہ باہمی اور پاکستان ، چین اور افغانستان کی سطح پر بھی بات کی طالبان اب ایک تنظیم نہیں انہیں اپنی ذہنیت تبدیل کرنی ہوگی اب وہ ریاست بننا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں دنیا تسلیم کرئے تو انہیں ایک ریاست اور حکومت کی طرح چلنا چاہیے ہمیں جذباتی ہونے کے بجائے ان سے مسلسل بات چیت کرنی چاہیے اتنی گنجائش رکھنی چاہیےکہ طالبان کے پاس وہ استعداد نہیں ہے لیکن انہیں بھی یہ مظاہرہ کرنا ہوگا کہ جو پاکستان کا دشمن ہے وہ انکا دشمن ہے اگر یہ الزام ثابت ہو کہ طالبان پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں تو یہ انتہائی خطرناک بات ہوگی۔