زوال ایک ایسا سماجی عمل ہے جو کسی ایک شعبے پر نازل نہیں ہوتا بلکہ معاشرتی زندگی کو بحیثیت مجموعی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور پھر انحطاط کا ایک ایسا ہمہ گیر عمل شروع ہوتا ہے جس سے کوئی طبقہ محفوظ نہیں رہتا ۔یہی عذاب آج ہمارے معاشرے پر نازل ہے،آج ہماری عدلیہ انحطاط کا شکارہے،تعلیم کا شعبہ بدترین زوال میں جکڑا ہوا ہے،ہمارے سماجی رویے کسی طور بھی صحت مند معاشرے کے عکاس نہیں،تصنیف و تالیف ہویا درس و تدریس، صنعت و حرفت یا سائنس اور ٹیکنالوجی ہر شعبے پر زوال کی خزاں نے اپنی چادر پھیلا رکھی ہے،جب سارے شعبے زوال کا شکار ہیں تو کھیل کا شعبہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔آج ہمارے پاس محض ماضی کی داستانیں ہیںاور حال کا دامن کامیابیوں سے خالی ہے۔جس طرح امت مسلمہ صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کو یاد کر کے ماضی میں رہنا پسند کرتی ہے اسی طرح ہم بھی جاوید میانداد اور عمران خان کا زمانہ یاد کر کے محض ماضی کی کامیابیوں سے خوشیاں کشید کرتے ہیں اور حال کی ناکامیوں سے نظریں چراتے ہیں۔پاکستانی قوم کے پاس خوشیاں حاصل کرنے کے مواقع پہلے ہی بہت کم ہیں۔ مہنگائی،بیروزگاری دہشت گردی اور دیگر معاشرتی مسائل نے پوری قوم کو افسردہ کر رکھا ہے۔لے دے کے کرکٹ تھی جس سے ہماری قوم کچھ دیر کیلئے ہی سہی،غم روزگار سے فرار حاصل کرتی تھی۔لیکن ایڈہاک ازم نے ایک طرف تو کھیلوں کے میدان اجاڑ دیے تو دوسری طرف قوم خوشیاں حاصل کرنے کے مواقع سے بھی محروم ہو گئی۔میری دانست میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کبھی ادارے تشکیل نہیں پا سکے۔یہاں پر ایک فرد کا بت بنا کر اسے پوجنے کا رواج ہے۔بڑے اور اہل لوگ تو کبھی کبھار پیدا ہوتے ہیں یہ تو ادارے ہوتے ہیں جو بڑے لوگوں کی صلاحیتوں سے طویل عرصے تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔جب ادارے بن جاتے ہیں تو معمولی صلاحیت کے لوگوں میں بھی یہ اہلیت پیدا کر دی جاتی ہے کہ وہ ان اداروں کی وجہ سے غیر معمولی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔جب ادارے طاقتور نہیں ہوتے تو رشوت،سفارش اور کئی چور دروازے کھل جاتے ہیں،میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔کھرے کھوٹے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور پھر تیسری اور چوتھی سطح کے لوگ صف اول میں آ جاتے ہیں اور ہمہ گیر زوال کا سبب بنتے ہیں۔
ہماری کرکٹ کا بھی یہی حال ہے۔اچھے کرکٹرزذاتی پسند نا پسند کا شکار ہو چکے ہیں۔ماضی کے ہیروز کیلئےہی سی بی میں داخلہ بند ہے۔یہاں پر ڈومیسٹک کرکٹ ختم کر دی گئی،مختلف ڈیپارٹمنٹس کی ٹیمیں بھی ختم کر دی گئیں، اقربا پروری اور سفارش کا ایسا دور چلا کہ ہر طرف ہی بھرتی کے لوگ نظر آنے لگے۔کھلاڑیوں پر ہی کیا موقوف یہاں تو کرکٹ بورڈ کے سربراہ ایسے ایسے لوگ مقرر کیے گئے جن کا کرکٹ سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہ تھا۔گزشتہ چند سال میں مقرر ہونے والے چیئرمین حضرات کے اسماء پر نظر ڈالیں تو اس زوال کی وجہ ایک لمحے میں سمجھ آتی ہے، شہر یار خان، نجم سیٹھی، ذکااشرف، اعجازبٹ، نسیم اشرف،جنرل توقیر ضیا، مجیب الرحمن،جسٹس نسیم حسن شاہ اور ان جیسے بہت سے لوگ جن کا کرکٹ سے دور تک کا بھی واستہ نہیں وہ کئی کئی سال اس کے کرتا دھرتا بنے رہے،اگر سفارت کار،بینک کار،سرمایہ دار، ڈاکٹرز، جج،جرنیل اور پراپرٹی ڈیلر یا عمر رسیدہ بزرگ کرکٹ کے معاملات چلائیں گے تو پھر اس کا یہی حال ہوگا جو آج ہماری کرکٹ ٹیم کا ہو رہا ہے۔اگر ہم کرکٹ ٹیم کی حالیہ تنظیم کی بات کریں تو محمد حفیظ کو ابتدائی طور پر ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا گیا جنہوں نے نہ تو کوچنگ کا کوئی کورس کر رکھا ہے اور نہ ہی اس کا تجربہ ہے اور نہ ہی یہ پی سی بی کی طرف سے جاری کردہ شرائط پر پورا اترتے ہیں۔
جب یہ انکشاف ہوا کہ وہ کوچ نہیں بن سکتے تو ان کیلئے ڈائریکٹر کا ایک الگ عہدہ تخلیق کیا گیا۔ اسی طرح سابق فاسٹ بالر وہاب ریاض کو چیف سلیکٹر بنانے کا اعلان کیا گیا جو اس وقت نگران وزیر کھیل بھی ہیں۔ ان کی جانب سے سلمان بٹ کو اپنا کنسلٹنٹ مقرر کرنے کے اعلان سے پوری کرکٹ میں ایک بھونچال آگیا۔ ایک ایسا شخص جو میچ فکسنگ میں سزا بھگت چکا ہے اسے کنسلٹنٹ مقرر کیوں کیا گیا۔بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بدترین کارکردگی دکھانے والی ٹیم آسٹریلیا کے ٹور پر ایسے روانہ ہوئی ہے جیسے پکنک پر جا رہی ہو۔نہ ان میں باہمی ربط ہے اور نہ ہی وہ نظم نظر آرہا ہے جو ماضی میں پاکستان کی ٹیم کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔دوستیوں اور رشتہ داریوں کی بنیاد پر ٹیم میں کھلاڑیوں کی جگہ بنائی جا رہی ہے اور جو شخص کھلاڑیوں میں جگہ نہیں بنا پا رہا اسے انتظامیہ میں شامل کر کے فیملی سمیت آسٹریلیا بھیجا گیا ہے۔ ہماری انتظامیہ نے کرکٹ ورلڈ کپ کی شکست سے بھی سبق نہیں سیکھا۔ اس بدترین زوال کا مقابلہ ادارہ جاتی تشکیل سے کیا جا سکتا ہے۔ جہاں پر صرف میرٹ کی حکمرانی ہو۔ کرکٹ اب محض کھیل نہیں بلکہ بیرونی دنیا میں پاکستان کی عزت اور وقار کی علامت ہے اسے چند غیر سنجیدہ اور کھلنڈرے لوگوں کی تجربہ گاہ بنانا پاکستانی وقار کی بے حرمتی ہے۔اس کی سربراہی ایسے لوگوں کے حوالے کی جائے جو اس کھیل کا علم رکھتے ہوں،تمام تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں۔ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو بحال کیا جائے۔علاقائی ٹیمیں ازسر نو تشکیل دی جائیں۔کوچ مقرر کرتے وقت بین الاقوامی معیار کو مد نظر رکھا جائے۔تب جا کر زوال آشنا ٹیم کو عروج کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے۔خدارا پاکستانی قوم کی خوشیاں واپس کریں اور اس خوبصورت کھیل کو اپنی ذاتی خواہشات کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
مزید خبریں
-
صدر ٹرمپ نے حد کر دی، کبھی وہ غزہ کی ملکیت لینے کے دعوے کرتے ہیں تو کبھی اُردن کے شاہ عبداللہ کو باتوں میں...
-
میں اس وقت ایف ایس سی کا طالب علم تھا جب ریڈیو پاکستان عروج پا چکا تھا جبکہ پی ٹی وی کوئٹہ سینٹر عروج پانے کو...
-
شمالی افریقہ کے اہم ملک لیبیا کے ساحلوں کے قریب ایک اور بحری کشتی ڈوبنے کے المناک سانحے میں کم از کم سولہ...
-
چند دن پرانی بات ہے، ایک ضروری کام کے لئے شہر جانے کا اتفاق ہوا۔کام نمٹانے کے بعد حسب معمول بشکو ٹی اسٹال پہنچ...
-
جب 2022 میں پاکستان شدید سیلاب کی زد میں آیا، تو نہ صرف ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا بلکہ ایک رات میں...
-
ترک صدر رجب طیب اردوان کی پاکستان آمد پر ان کا پرتپاک خیر مقدم خوش آئند امر ہے ۔پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات...
-
کیا کریں؟ عاشقی صبر طلب ہے اور تمنا بےتاب، اوپر سے ’آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک‘...بات ایک عمر ہی تک ہو، تو...
-
قانون میں ترمیم کی گئی ہےکہ’’غلط اور جھوٹی خبر سے متاثرہ شخص کو اتھارٹی کو خبر ہٹانے یا یا بلاک کرنے کیلئے...