بجلی کے شعبے کے نقصانات فکس کرنیکا کوئی روڈ میپ نہیں

07 دسمبر ، 2023

اسلام آباد ( مہتاب حیدر) پاکستان کا بجلی کا سیکٹر بغیر پتوار کی کشتی جیسا ہوگیا ہے جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ یہ کہاں جارہی ہے اسی طرح بجلی کے شعبے کے بارے میں بھی کوئی نہیں جانتا کہ اس کے تیز ی سے بڑھتے ہوئے نقصانات کیسے فکس کیے جائیں۔ پاور سیکٹر کے سرکردہ افسران سے ریکارڑ پر ہونے والی گفتگو اور پس منظر میں ہونے والےمباحثوں سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ ان بڑھتے ہوئے نقصانات کا کوئی جلد حل نہیں ہے اور سبسڈیز کے گردشی قرضے کا بڑھتا ہوا عفریت اب دفاعی بجٹ 1800 ارب روپےکے آس پاس پہنچ سکتا ہے اور یہ بھی اس صورت میں کہ اس میں ہر قسم کی نااہلی بھی پائی جاتی ہے اور عوام پر اس کا بوجھ بھی جائز اور ناجائز طریقے کی بلنگ کے ذریعے ڈالا جارہا ہے بالخصوص ان لوگوں پر جو وسطی اور شہری پنجاب میں رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ کسی کے پاس کوئی روڈ میپ ہی نہیں ہے کہ کرنا کیا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ اگر اسٹیٹس کو کو چھیڑا گیا تو بجلی کا پورا نظام اپنے بوجھ سے گرسکتا ہے۔ وہ سب لو گ جو پاور سیکٹر کے بارت میں کچھ جانتے ہین ان کے پاس دو حل ہیں یا تو سارے عمل کو ٹھپ کر واپڈا کو پھر سے حال کر دیاجائے اور اسے مکمل اتھارٹی دے دی جائے کہ وہ بجلی پیدا کرے اور اسے تقسیم بھی کرے یا پھر واپڈا کی باقی ماندہ چیزوں کو بھی کھولاجائے اور تمام ڈسکوز اور جینکوزکو بغیر کوئی وقت ضائع کیے پرائیویٹائز کر دیاجائے۔ نگران حکومت کی بات کر یں تو اس نے تو ڈسکوز کو پرائیویٹائز کرنے کا منصوبہ طاق پر رکھ دیا ہے اور اس کے بجائے 25 سے 32 سال کےلیے ان کمپنیوں کو لیز پر دینے کا رعایتی سمجھوتہ سامنے لائی ہے۔ اب یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نجکاری اور لیزآئوٹ کے رعایتی سمجھوتوں میں فرق کیا ہے۔ پرائیویٹائزیشن کمیشن ڈسکوز کی نجکاری سے پیچھے ہٹ گیا ہے اور انہوں نے مخصوص تائم فریم کے اندر انہیں لیز آئوٹ کرنے کا تصور دیا۔