ن لیگ کا ایک امیدوار مسترد نہیں ہوا،ہمارے 90 فیصد ہوگئے،لطیف کھوسہ

31 دسمبر ، 2023

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہےکہ نون لیگ کا ایک بھی امیدوار مسترد نہیں ہوا کیا یہ اتفاق ہے اور ہمارے نوے فیصد کو مسترد کر دیا گیا،سینئر اینکر حامد میر نے کہا کہ کاغذات کے مسترد ہونے پر مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ یہی متوقع تھا،وہ لوگ بھی ٹارگٹ پر ہیں جن کا مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں ہے۔ ان سب چیزوں سے لوگوں کا الیکشن پراسیس سے اعتماد ختم ہوگا بلکہ جوڈیشری سے بھی اعتماد ختم ہوگا،میزبان شہزاد اقبال نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 8 فروری کو انتخابات ہوں گے مگر انتخابات سے پہلے نمائندگان کے کاغذات نامزدگیاں مسترد کرنے کے جو فیصلے سامنے آئے ہیں اس سے انتخابات کی شفافیت الیکشن کمیشن کی ساکھ اور نگراں حکومت پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے کل ہی کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کی بدترین پری پول ریگنگ ہے اگر یہی سب کرنا تھا تو پھر تکلف کرنے کی کیا ضرورت تھی نون لیگ کا ایک بھی امیدوار مسترد نہیں ہوا کیا یہ اتفاق ہے اور ہمارے نوے فیصد کو مسترد کر دیا گیا۔جتنے بھی جھوٹے مقدمات نو ، دس، گیارہ مئی کے تھے ان سب کو اٹھا کر نااہل کر دیا ہے ۔ مینگل کے مسترد کر دیئے گئے سندھ میں مرزا خاندان کے سب کے مسترد کر دیئے گئے۔نوازشریف اور ان کے خانوادے کو ایک ایک کر کے بَری کر کے پاک کردیا ہے ان کے کاغذات نامزدگی کیسے منظور ہوسکتے تھے جب ان پر سپریم کورٹ نے انہیں تاحیات نااہل کیا ہے نظر ثانی کی درخواست بھی خارج ہوگئی پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ میں جو اپیل کی شق رکھی تھی 184-3 کے تحت براہ راست سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی۔ ان لوگوں کی ضمانتیں ضبط ہوں گی۔جن لوگوں کے کاغذات مسترد کیے گئے ہیں اگر اپیل میں ہمیں پذیرائی نہ بھی ملی تو بھی ہمارے پاس کورنگ امیدوار اور متبادل ہر حلقے میں موجود ہیں۔دو سے تین کروڑ ووٹر جو نیا بنا ہے وہ والہانہ طور پر تحریک انصاف سے محبت کرتا ہے اور ان لیٹروں سے نفرت کرتا ہے۔ الیکشن میں ہم کلین سوئپ کرنے جارہے ہیں۔ لیول پلئینگ فیلڈ دینے کو تیار نہیں ہیں انتخابی نشان دینے کو تیار نہیں ہیں اور اگر ہمیں ملا ہے تو عدالتوں پر بھی چڑھ دوڑے ہیں۔انتخابی نشان اس لیے ہوتا ہے کہ یہاں خواندگی کی شرح بہت کم ہے ۔ انتخابی نشان اگر کسی کا لے لیا جاتا ہے تو یہ ووٹرز کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔