پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو مشکل ہوگی،تجزیہ کار

31 دسمبر ، 2023

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کا انتخابی نشان کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو مشکل ہوجائے گا،بلوچستان میں نون لیگ کی لیڈر شپ آئی انہوں نے بڑی تعداد میں الیکٹربلز کو شامل کروایا پھر پیپلز پارٹی نے بھی یہی کیا،پورے سندھ میں اس وقت توجہ کا مرکز کراچی ہے ۔ پیپلز پارٹی مخالف جماعتیں متحد ہونے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن باقاعدہ کسی انتخابی اتحاد کا اعلان نہیں ہوا ہے،کسی قسم کی سیاسی ایکٹویٹی حلقوں میں نظر نہیں آرہی ہے،انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوں سیاسی کرائسز ختم نہیں ہوگا ، پی ٹی آئی کو جو ووٹ ملے گا وہ بیچارگی کا ملے گا کاکردگی کا نہیں ملے گا۔ پنجاب میں سب سے بڑا مسئلہ آئی پی پی کا ہے۔پروگرام میں سینئر صحافی ، کوئٹہ شہزاد ذوالفقار،سینئر صحافی پشاور اسماعیل خان،سینئر صحافی عبدالجبار ناصر،بیورو چیف لاہور جیو نیوز رئیس انصاری ،نمائندہ جیو نیوز اعزاز سید اور سینئر صحافی حسن ایوب نے اظہار خیال کیا۔سینئر صحافی ، کوئٹہ شہزاد ذوالفقارنے کہا کہ بلوچستان میں نون لیگ کی لیڈر شپ آئی انہوں نے بڑی تعداد میں الیکٹربلز کو شامل کروایا پھر پیپلز پارٹی نے بھی یہی کیا۔ پہلے لگتا تھا نون لیگ آگے ہے لیکن اب پیپلز پارٹی کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔فضل الرحمن کو نون لیگ کچھ جگہ پر سپورٹ کرے گی اور کہیں وہ سپورٹ کریں گے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ان کے ساتھ ہے نیشنل پارٹی بھی نون لیگ کے ساتھ ہے۔ جے یو آئی کہیں پر سردار مینگل کے ساتھ ہے کہیں پر نہیں ہے ان کی بات چیت شروع ہوگئی ہے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ نیشنل پارٹی او جے یو آئی کی شروع ہوئی۔سینئر صحافی پشاور اسماعیل خان نے کہا کہ جب تک پارٹی کی طرف سے ٹکٹ نہیں جاری ہوجاتے یہ سارا معاملہ قبل از وقت ہوجائے گا۔ اے این پی مہم چلا رہی ہے جے یو آئی کو بہت بڑا مسئلہ ہو رہا ہے۔ ابھی تک الیکشن کا ماحول نظر نہیں آرہا ہے بڑی وجہ سیکورٹی کی وجوہات ہیں۔باجوڑ میں باقاعدہ داعش کی طرف سے پمفلیٹ تقسیم ہوئے ہیں۔کل وزارت داخلہ کی طرف سے بھی خط آیا تھا احمد ولی خان اور فضل الرحمن کو تھریٹ ہے۔تحریک انصاف کا انتخابی نشان کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو مشکل ہوجائے گا اگر یہ فیصلہ ان کے خلاف چلا جاتا ہے تو مجبوری ہے آزاد الیکشن لڑیں گے ۔سینئر صحافی عبدالجبار ناصر نے کہا کہ پورے سندھ میں اس وقت توجہ کا مرکز کراچی ہے ۔ پیپلز پارٹی مخالف جماعتیں متحد ہونے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن باقاعدہ کسی انتخابی اتحاد کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ مسلم لیگ نون ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور جے یو آئی مل کر ایک اتحاد بنا کر پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن مستحکم ہے اور شہری سندھ میں بھی اگر کوئی بڑا اتحاد منظم انداز میں نہیں ہوا تو پیپلز پارٹی ٹف ٹائم دے گی بعید نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں دو تہائی اکثریت لے لے۔ایم کیو ایم اور نون لیگ کا معاملہ میری اطلاعات کے مطابق نوے فیصد طے ہوچکا ہے۔بیورو چیف لاہور جیو نیوز رئیس انصاری نے کہا کہ پنجاب میں صرف دو ہی پارٹیاں ہیں مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی اور دونوں زوروں میں ہیں لیکن ان میں آزادانہ طریقے سے صرف نون لیگ کام کر رہی ہے۔ تقریباً چالیس دن الیکشن میں رہ گئے ہیں اور کسی قسم کی سیاسی ایکٹویٹی حلقوں میں نظر نہیں آرہی ہے۔ ابھی تک یہ بھی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کاغذ کس نے جمع کرائے ہیں کس نے نہیں کرائے ہیں جو ہمارے سامنے نام آئے ہیں ان میں بھی کافی ایسے ہیں جو اسکروٹنی میں رہ جائیں گے۔ پنجاب میں سب سے بڑا مسئلہ آئی پی پی کا ہے میرے ذرائع کے مطابق ان پر دباؤ ہے کہ آئی پی پی کو سیٹ دی جائیں۔ آئی پی پی کے رہنما کا دعویٰ ہے کہ پندرہ ایم این اے اور تیس کے قریب این پی اے کی سیٹیں مل جائیں گی اگر ایسا ہوجاتا ہے تو نون لیگ کہاں جائے گی۔ تحریک لبیک کا بھی اچھا ووٹ ہے وہ بھی الیکشن پر اثر انداز ہوگی اور یہ وہ ووٹ ہے اگر ان کا امیدوار نہ ہو تو نون لیگ کو جاتے ہیں ووٹ کے اعتبار سے ان کی تیسری بڑی پوزیشن ہے سیٹ بے شک ان کی ایک ہی تھی لیکن ووٹ کے اعتبار سے ان کی تیسری پوزیشن بنتی ہے۔ نمائندہ جیو نیوز اعزاز سیدنے کہا کہ الیکشن کا ماحول ڈیولپ نہیں ہوسکا ہے تقریباً چالیس دن رہ گئے ہیں ۔ انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوں سیاسی کرائسز ختم نہیں ہوگا ۔ شاید پی ٹی آئی انتخابات میں نہیں ہوگی نہ کوئی چاہتا ہے کہ وہ انتخابات میں ہو لیکن جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ انتخابات میں ہو تو کیا اس سب سے ملک کے لیے کوئی بہتری آسکے گی۔پی ٹی آئی کے لیے بلے کا انتخابی نشان لینا بہت مشکل ہوچکا ہے ۔سینئر صحافی حسن ایوب نے کہا کہ پی ٹی آئی کی اتنی زیادہ بے ضابطگیاں ہیں انٹرا پارٹی الیکشن میں پھر اسے پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جاتا ہے۔ نو مئی کو اگر ریاست نے معاف کر دیا تو وہ بار بار ہوگا۔ اگر انہیں ڈیل کرنی ہے تو آگے دوسری پارٹیاں بھی یہ کرسکتی ہیں پھر ٹی ٹی پی کو بھی معاف کردیں ۔ لیکن آج تک تو مجھے یہی نظر آرہا ہے کہ وہ نو مئی کو معاف نہیں کریں گے۔ پی ٹی آئی کو جو ووٹ ملے گا وہ بیچارگی کا ملے گا کاکردگی کا نہیں ملے گا۔ لیکن نون لیگ کے پاس کارکردگی موجود ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سولہ ماہ نے ڈیمیج کیا ہے۔