قومی یکجہتی کی راہ

اداریہ
12 فروری ، 2024

انتخابات کے بعد ایسی حکومت کی تشکیل ضروری ہے جو واضح عوامی تائید کی حامل ہو اور ملک کو مشکلات کی دلدل سے نجات دلانے کی بھرپور اہلیت رکھتی ہو۔پولنگ سے پہلے مقامی اور عالمی اداروں کے جائزوں میں بالعموم اس یقین کا اظہار کیا جارہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن جمعرات کو نتائج کا اعلان شروع ہوا تو صورت حال اندازوں اور جائزوں سے بہت مختلف نظر آئی جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو قوم سے خطاب کا پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔ ابتدائی نتائج کے بعد موبائل سروس اور انٹرنیٹ کے بندش کے ساتھ نتائج کے اعلان میں تاخیر نے شکوک و شبہات کو جنم دیا جبکہ نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے تاخیر کی مختلف تاویلات کی جاتی رہیں۔تاہم جمعے کوقائد مسلم لیگ (ن) نے منظر عام پر آنے والے نتائج کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن جانے کے دعوے کے ساتھ اپنی جماعت کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے دوسری جماعتوں کو بھی حکومت سازی کے لیے مل بیٹھنے کی دعوت دینے کا اعلان کیا اور اس کے لیے اسی رات رابطے شروع ہوگئے ۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتوں میں بات چیت کے علاوہ ایم کیو ایم اور جے یو آئی سے بھی رابطے جاری ہیں۔ تاہم ہفتے کے روز مختلف حلقوں کے مکمل نتائج سامنے آنے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ کامیاب امیدواروں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور یوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کامیاب امیدواروں کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے اور تیسرے نمبر پر آگئیں۔ ایک انتخابی نشان نہ ملنے کی وجہ سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ کامیاب امیدوار قانوناً توایک پارلیمانی پارٹی کی حیثیت نہیں رکھتے لیکن انہوں نے کامیابی بہرصورت پی ٹی آئی کے نمائندے ہی کے طور پر حاصل کی ہے جس کے باعث پارٹی قیادت خیبر پختون خوا کے علاوہ مرکز اور پنجاب میں بھی حکومت سازی کو اپنا حق قرار دے رہی ہے۔ دوسری طرف انتخابی نتائج کے حوالے سے گزشتہ روز متعدد ایسے کیس سامنے آئے ہیں جن میں پولنگ ایجنٹ کو ملنے والے فارم45 اور ایک حلقے کے مجموعی نتائج پر مشمل فارم 47 میں بھاری فرق ہے جس سے ہارنے والوں کو جتانے کے لیے فارم 47 میں نتیجے کا بدلا جانا ظاہر ہوتا ہے۔ متاثرہ امیدواروں اور پارٹیوںنے اس صورت حال کے خلاف ملک بھر میں احتجاج شروع کردیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انتخابات کی نگرانی کرنے والی تنظیم فافن نیز یورپی یونین اور برطانیہ و امریکہ نے بھی انتخابی نتائج پر سوالات اٹھائے ہیں۔ صدر جوبائیڈن کو ان کے متعلقہ مشیروں نے انتخابی عمل میں دھاندلی کی تحقیقات کا نتیجہ سامنے آنے تک انتخابات کو تسلیم نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ انتخابی عمل اور نتائج کو قابل اعتبار بنانے کے لیے مکمل تحقیقات کرکے تمام بے قاعدگیوں کا ازالہ کیا جائے، دانستہ نتائج تبدیل کرنے کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے اوردرست نتائج کے مطابق حکومت سازی جس کا حق بنتی ہو اُسے حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے انتخابات کے انعقاد پر قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے جمہوری قوتوں کی نمائندہ متحد حکومت قومی اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے بہتر طریقے سے کام کرے گی۔ ان کا یہ کہنا بھی بالکل بجا ہے کہ پچیس کروڑ کی آبادی والا ترقی پسند ملک انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا،دعا اور خواہش ہے کہ انتخابات ملک میں معاشی استحکام کاذریعہ ثابت ہوں۔ آرمی چیف کی یہ خواہش پوری قوم کی دلی تمنا کی ترجمانی کرتی ہے لیکن اس کے لیے انتخابی نتائج کا معتبر بنایا جانااور ان کے مطابق حکومت سازی لازمی ہے ، یہی قومی یکجہتی کی واحد راہ ہے۔