یہ تو عجب  غضب ہوگیا

مریم فیصل
12 فروری ، 2024

پاکستان کے حالیہ عام انتخابات کے نتائج دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نہ چٹ میری نہ پٹ تیری، مطلب جو بہت کی امید لگا کر بیٹھے تھے ان کے ہاتھ بھی کچھ خاص نہ لگا اور جن کی امیدوں کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی وہ فاتح نہ بھی قرار دیئے جائیں تب بھی فاتح ہی ہیں لیکن نتائج سے یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ پاکستانی قوم اب خواب غفلت میں مبتلا نہیں بلکہ انھیں یہ سمجھ آگیا ہے کہ ہمارے لئے کون درست ہے اور کون غلط کیونکہ کروڑوں کی تعداد میں ووٹ خلائی مخلوق نے تو ڈالے نہیں ہوں گے یہ پاکستانی ہی ہیں جنہو ں نے ان آزاد امیدواروں کو ووٹ دیئے جن کا تعلق اس بے چاری پارٹی سے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی جن کا لیڈر محب وطن ہونے کی سزا میں جیل میں قید ہے ، یہ تو بالکل صاف بات ہے کہ ہمیں غیر جانبدار رہ کر ہی لکھنا اور بولنا ہوگا لیکن بطور ایک پاکستان نژاد برطانوی کے ہمیں یہ بھی کہنے سے کوئی روک نہیں سکتا کہ پاکستانی قوم نے اپنا فیصلہ صاف صاف اسی کی حق میں دیا ہے جو تبدیلی کی باتیں کرتا تھا ، اب یہ الگ بات ہے کہ اس فیصلے کو بدلنے کی کوشش ضرور کی گئی لیکن شاید گزشتہ کئی انتخابات کی طرح اس بار یہ کوشش اس حد تک کامیاب ہونہ سکی کیونکہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ڈالے گئے ووٹوں کو بدلنا پھر بھی آسان ہوتا تھا لیکن بارہ کروڑ عوام کے ایک ’’ ہی‘‘ کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کو کسی دوسرے کے حق میں بدلنا یقینا بہت مشکل کام تھا ، خیر اندر کی بات ہم کیا جانیں یہ تو مفروضہ بھی ہوسکتا ہے، با ت تو اب یہ ہے کہ حکومت بنائے کا کون ،تینوں بڑی جماعتیں اپنی کامیابی کا دعویٰ کر رہی ہیں لیکن وہ بھی جانتی ہیں کہ یہ دعوے کتنے کھوکھلے ہیں کیونکہ حقیقت سے آنکھیں چرانا آسان نہیں لیکن بہرحال پاکستان کو ایک سربراہ ایک حکومت کی ضرورت ہے جو اس کی معیشت کے فیصلے کر سکے کیونکہ پاکستان نہ ہی فورا دوسرے عام انتخابات کا متحمل ہوسکتا ہے اور نہ آمریت کا، وہ وقت آگیا ہے کہ وہاں ایک حکومت ہو چاہے مخلوط ہی سہی لیکن وہاں ایک وزیر اعظم ہو اور خاموش گونگا ہی سہی ایک صدر ہو کیونکہ کسی بھی ملک کے صرف معاشی صنعتی معاملات ہی نہیں ہوتے ہیں، سفارتی معاملات بھی ہوتے ہیں دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی معاملات بھی طے کرنے ہوتے ہیں جو ایک سربراہ کے ذریعے ہی طے پائے جاسکتے ہیں اور ناراض پڑوسی تو کہنا بھی شروع ہوچکا ہے کہ یہ کون بتائے گا کہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی طرح کے معاملات پر بات چیت کس سربراہ کے ذریعے کی جائے گی۔اس سے پہلے اور دوسرے ممالک بھی ایسے ہی سوال کھڑے کرنا شروع کر دیں سیاسی جماعتوں کو اپنے مفادات کو بھلا کر پاکستان اور پاکستانی قوم کے مفادات کو سامنے رکھ کر ملک میں ایک مضبوط مستحکم اور ایسی حکومت کے قیام کو ممکن بنانا ہوگا جو نہ صرف اپنی مدت کو پورا کرے بلکہ اپوزیشن میں بیٹھنے والی سیاسی پارٹیاں اسے کام کرنے کا موقع بھی دیں تبھی ملک میں استحکام ممکن ہے۔