پنجاب اور سندھ کے نئے وزرائے اعلیٰ

اداریہ
28 فروری ، 2024

ملک میں ایک جانب عام انتخابات میں ہارنےوالی سیاسی پارٹیوں کامبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج جاری ہے تو دوسری طرف دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں نئے وزرائے اعلیٰ کا انتخاب ہو گیا ہے۔ وہاں نگران حکومتیں ختم ہو گئی ہیں اور اقتدار منتخب نمائندوں کومنتقل کر دیا گیا ہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس آج ہو رہے ہیں جس کے بعد وفاق کے سوا چاروں صوبوں میں جمہوری عمل کا پہلا مرحلہ مکمل ہو جائے گا، پیر کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ ن کی محترمہ مریم نواز ملک میں کسی صوبے کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئیں اور تاریخ رقم کر دی۔ انہیں 220ووٹ ملے جبکہ اپوزیشن کے بائیکاٹ کی وجہ سے اس کا امیدوار ایک بھی ووٹ حاصل نہیں کر سکا۔ نئی وزیراعلیٰ نے گورنر ہائوس میں اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا۔ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں انہوں نےسب سے پہلے مہنگائی کے خاتمے کیلئے اقدامات کا اعلان کیا اورہیلتھ کارڈ کی بحالی، ائیر ایمبولینس سروس شروع کرنے، کرپشن کے خاتمے ، رمضان پیکیج اور پارٹی کے منشور پر عملدرآمد کے عزم کا اظہار کیا۔ بطور وزیر اعلیٰ ان کے 17نکاتی ایجنڈے میں جس 5 سالہ روڈ میپ کا اعلان کیا گیا ہے اس میں پنجاب کو بزنس حب بنانا، سمال بزنس لون کا اجرا، ہر ضلع میں سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتالوں، دانش سکولوں، خواتین کیلئے محفوظ ماحول کی فراہمی، ذہین طالب علموں کیلئے حکومت کے خرچ پر تعلیم، سرکاری سکولوں کا معیار بڑھانے، نوجوانوں کو قرضے اور الیکٹرک بائیکس کی فراہمی، خصوصی بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کی سہولتیں، کرپشن کی روک تھام، سستے بازاروں کی مانیٹرنگ اور ٹرانس جینڈر کیلئے خصوصی پیکیج وغیرہ شامل ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور دوسرے عوامی مسائل کے حل کیلئے انہوں نے جو پروگرام پیش کیا ہے اس پر عملدرآمدہو گیا تو یہ یقیناً عوامی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے انقلابی پیش رفت ہو گی۔ حلف برداری کے فوراً بعد انہوں نے تنگ و تاریک گلیوں سے گزر کر ایک تھانے کا دورہ کیا اور قیدیوں سے بات چیت کی جو ان کے عملیت پسند ہونے کی خوش آئند علامت ہے۔ پنجاب کے علاوہ پیر کو سندھ کے وزیر اعلیٰ کا انتخاب بھی ہو گیا۔ سید مراد علی شاہ کی صوبائی اسمبلی نے تیسری مرتبہ وزیر اعلیٰ منتخب کر کے ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان اور جماعت اسلامی نے یہاں بھی انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا تاہم ایم کیو ایم نے ان کا مقابلہ کیا۔ سید مراد علی شاہ کو 112 جبکہ ایم کیو ایم کے امیدوار کو 36ووٹ ملے۔ انتخاب کے بعد اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کی رفتار تیز کی جائے گی۔ 5 سال میں ملازمین کی تنخواہیں دوگنی کر دی جائیں گی۔ کچے کے علاقے میں آپریشن کر کے ڈاکوئوںکا خاتمہ کیا جائے گا اور کراچی کو کرائم فری سٹی بنایا جائے گا، انہوں نے ملکی سالمیت اور استحکام کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا اور دہشت گردی کے خاتمے، مہنگائی اور بیروزگاری پر قابو پانے ،دو لاکھ گھروں کو شمسی توانائی کی فراہمی کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کراچی کی سندھ سے علیحدگی کی باتوں کو ناقابل قبول قرار دیا اور اپنے گزشتہ ادوار میں صوبے کی تعمیر و ترقی میں جو کمی رہ گئی تھی اس کے ازالے کا عہد کیا۔ سید مراد علی شاہ ایک تجربہ کار سیاستدان اور منتظم ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ وہ اپنے صوبے کے عوامی مسائل حل کرنے اور وسیع قومی تناظر میں ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لائیں گے۔ ملک و قوم کواس وقت سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے علاوہ روزافزوں مہنگائی، قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ اور دہشت گردی وغیرہ کے جو مسائل درپیش ہیں توقع کی جانی چاہئے کہ انہیں حل کرنے کیلئے وفاق کی سطح پر بھی انتقال اقتدار کا مرحلہ بحسن و خوبی انجام پا جائے گا۔ سیاسی پارٹیوں کو اس حوالے سے قومی مفاد میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔